خلاصہ: لغو اور فضول کام سے انسان کو پرہیز کرنی چاہیے، اس سلسلہ میں سورہ مومنون کی آیت اور اس کی تفسیر میں مرحوم علامہ طباطبائی کے بیانات ذکر کیے جارہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ مومنون کی تیسری آیت میں فلاح پانے والے مومنین کی دوسری صفت یہ بیان فرمائی ہے: "وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ"، "اور جو بیہودگی سے رُخ موڑنے والے ہیں"۔
مرحوم علامہ طباطبائی فرماتے ہیں: دین کی نظر میں "لغو" کام وہ مباح اور حلال اعمال ہیں جن کو انجام دینے والا شخص آخرت یا دنیا میں ان سے کوئی فائدہ حاصل نہ کرے اور ان کا انجام آخرت کے فائدہ تک اختتام پذیر نہ ہو، جیسے کھانے میں شہوت (خواہش) کی نیت سے کھانا اور پینا جو کہ لغو ہے، کیونکہ کھانے اور پینے سے مقصد اللہ کی اطاعت اور عبادت کے لئے طاقت حاصل کرنا ہے۔ لہذا اگر عمل کا آخرت کے لئے کوئی فائدہ نہ ہو اور اس کا دنیاوی فائدہ بھی بالآخر آخرت پر اختتام پذیر نہ ہو تو ایسا عمل لغو ہے اور زیادہ گہری نظر کے مطابق، غیرواجب اور غیر مستحب، "لغو" ہے۔
اللہ عزّوجل نے مومنین کے صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ لغو کو بالکل چھوڑ دیتے ہیں، بلکہ فرمایا ہے: اس سے رُخ موڑ لیتے ہیں، کیونکہ ہر انسان جتنا بھی باایمان ہو لغزش اور خطا کی زد میں ہے، اور اللہ نے بڑے گناہوں کے علاوہ لغزشوں کو، اگر بڑے گناہوں سے پرہیز ہو تو معاف کیا ہے اور فرمایا ہے: "إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلًا كَرِيماً"، "اگر تم ان بڑے (گناہوں) سے بچتے رہو، جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے۔ تو ہم تمہاری (چھوٹی) برائیاں دور کر دیں گے (معاف کر دیں گے) اور تمہیں ایک معزز (جنت) میں داخل کریں گے"۔
اسی لیے اللہ نے مومنین کی اس صفت کے ساتھ تعریف کی ہے کہ وہ لغو سے رُخ موڑ لیتے ہیں۔ [ترجمہ تفسیر المیزان، ج۱۵، ص۹]
۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ترجمہ تفسیر المیزان، علامہ طباطبائی علیہ الرحمہ]
[دوسری آیت: سورہ نساء، آیت ۳۱، کا ترجمہ از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب]
Add new comment