خلاصہ: بات کرنا اگرچہ ظاہری طور پر آسان کام ہے، لیکن اسلامی تعلیمات کی روشنی سے واضح ہوتا ہے کہ بات کرنے میں خیال رکھنا چاہیے کہ فضول بات نہ کی جائے اور فائدہ مند بات کی جائے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسان بعض اوقات ایسی باتیں کرتا ہے جن سے اپنے آپ کو یا دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے، لیکن اکثر ایسی باتیں کرتا رہتا ہے جن کا فائدہ نہ خود اس کو ہوتا ہے اور نہ دوسروں کو، نہ دنیاوی فائدہ نہ اخروی فائدہ، ایسی باتیں کرنا اگرچہ مباح اور جائز ہوں، لیکن دوسرے لحاظ سے روایات میں اس کی مذمت کی گئی ہے کیونکہ بے فائدہ، بیہودہ اور عبث ہے اور عاقل انسان عبث اور بے فائدہ عمل کا ارتکاب نہیں کرتا۔ حضرت عبدالعظیم حسنی (علیہ السلام) نے حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے اور حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) نے اپنے آباء و اجداد سے اور وہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) سے نقل کرتے ہیں: "مَرَّ أميرُ المُؤمِنينَ عَلِيُّ بنُ أبى طالِبٍ عليه السلام بِرَجُلٍ يَتَكَلَّمُ بِفُضولِ الكَلامِ ، فَوَقَفَ عَلَيهِ ، ثُمَّ قالَ :إنَّكَ تُملى عَلى حَافِظَيكَ كِتاباً إلى رَبِّكَ ؛ فَتَكَلَّم بِما يَعنيكَ ، ودَع مالا يَعنيكَ"[1]، امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو زیادہ باتیں کررہا تھا تو آپؑ اس کے پاس کھڑے ہوگئے، پھر آپؑ فرمایا: "یقیناً تم اپنے (اعمال کے) دو نگہبان (فرشتوں) کو تحریر بول رہے ہو جسے اپنے پروردگار کی طرف (بھیج رہے ہو)، لہذا فائدہ مند بات کرو اور فضول باتیں چھوڑ دو"۔
مذکورہ حدیث، قرآن کریم کی روشنی میں:
۱۔ انسان کی باتوں کو لکھے جانے کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد الہی ہے: "إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ . مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ"[2]، "جبکہ دو اخذ کرنے والے (کراماً کاتبین) ایک دائیں جانب بیٹھا ہے اور دوسرا بائیں جانب (اور ہر چیز کو لکھ رہے ہیں)۔ وہ کوئی لفظ بھی نہیں بولتا مگر یہ کہ اس کے پاس نگران تیار موجود ہوتا ہے"۔[3]
۲۔ پروردگار عالم نے سورہ مومنون کی ابتدائی آیات میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے نماز میں خشوع کے بعد، لغو اور بیہودہ سے منہ موڑنے کی صفت بیان کی ہے، ارشاد پروردگار ہے: "قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ۔ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ"[4]، " یقیناً وہ اہلِ ایمان فلاح پاگئے جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع کرتے ہیں اور جو بیہودہ باتوں سے منہ موڑتے ہیں"۔[5]
حدیث کی تشریح، چند اہم نکات اور عملی دروس:
1۔ انسان جو کچھ بولتا ہے، اسے نگہبان فرشتے لکھ رہے ہیں۔ جب سب کچھ لکھا جارہا ہے تو فضول باتیں کیوں لکھوائی جائیں، جب سب کچھ لکھا جارہا ہے تو اچھی باتیں لکھوائی جائیں۔ باتوں کو فرشتے تحریر کررہے ہیں تو یہ باتیں صرف فرشتوں تک نہیں رہ جاتیں، بلکہ پروردگار کی بارگاہ میں پہنچائی جارہی ہیں۔
2۔ بات کرنے کا معیار، فائدہ مند ہونا اور بے فائدہ ہونا ہے، جس بات کا فائدہ نہ ہو، اس کو بیان نہ کیا جائے اور بات بھی تب کی جائے کہ اس کا فائدہ ہو۔
3۔ انسان اپنی فضول باتوں کو اسی دنیا میں لکھے ہوئے دیکھ لے تو پڑھنے سے شرمائے گا اور اپنے ضمیر کے سامنے شرمندگی محسوس کرے گا، مذکورہ حدیث کے مطابق، باتیں اللہ کی بارگاہ میں پہنچ رہی ہیں، لہذا جب انسان اسی دنیا میں اپنی فضول باتوں کو پڑھنے سے شرمندہ ہوتا ہے تو قیامت کے دن پڑھنے سے کتنی شرمندگی محسوس کرے گا بلکہ حسرت کھائے گا، کیونکہ فضول باتوں کا فضول ہونا تو ایک طرف اور دوسرا نقصان یہ ہے کہ انہی فضول باتوں کی جگہ پر اگر اچھی اور نیک باتیں کرتا یا ذکر الہی اور صلوات جیسے اذکار کو زبان پر دن رات جاری رکھتا تو اس کے نامہ عمل میں وہی نورانی اذکار تحریر ہوتے اور قیامت کے دن انہی اذکار کے ثواب سے لطف اندوز ہوتا۔
4۔ یہ غیب پر ایمان رکھنے یا نہ رکھنے کی علامت ہے، قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) نے جب خبر دے دی ہے کہ جو کچھ بولو، لکھا جارہا ہے،تو اس غیبی خبر پر پختہ عقیدہ اور مضبوط ایمان رکھنا چاہیے، اس لیے کہ اگر انسان بولتے ہوئے لکھے جانے کو دیکھ لے اور اس حقیقت کو پالے کہ اللہ کی بارگاہ میں سب باتیں پیش کی جارہی ہیں تو فضول باتوں سے دستبردار ہوجائے گا اور ضروری باتوں کو بھی ناپ تول کر بیان کرے گا کہ کہیں ایک لفظ بھی زیادہ نہ بول بیٹھے، کیونکہ ہر لفظ رب العالمین کی بارگاہ میں جائے گا۔
5۔ انٹرنیٹ، میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی کی وجہ سے دن بدن فضول اور بے فائدہ باتوں میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، جبکہ لوگوں کو چاہیے کہ ان سہولیات کو اپنی ضروریات کو ہی پورا کرنے کے لئے استعمال کریں، کیونکہ دشمن نے ان وسائل کو انسان کی گمراہی اور لہو و لعب میں مصروف رہنے کے لئے اور اپنے ناپاک عزائم تک پہنچنے کے لئے آلہ کار بنا لیا ہے، حالانکہ اللہ تعالی نےسائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کو انسانی کمال اور ترقی کے لئے فراہم کیا ہے، مگر غلط فائدے اٹھانا اور ناجائز استعمال، پروردگار کی اس عظیم نعمت کی انتہائی ناشکری ہے۔ لہذا اگر اسلامی معاشرے، ان جدید سائنسی سہولیات کو اللہ کی صرف فرمانبرداری کے لئے اور رضائے پروردگار کی حد تک استعمال کریں تو دنیا بھر کے اسلامی معاشروں میں اسی ٹیکنالوجی کے ذریعے عدل و انصاف حق و صداقت اور انقلاب آسکتا ہے، ان جدید وسائل کو استعمال کرتے ہوئے زبان کو اپنے قابو میں رکھنا، اس عالمی انقلاب کا عظیم مرحلہ ہے۔
6۔ واضح رہے کہ ایسا نہیں کہ فرشتے اہم باتوں کو لکھیں اور غیراہم باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے نہ لکھیں، بلکہ فائدہ مند، بے فائدہ، فضول، بیہودہ، چھوٹی، بڑی، اچھی، بری، خلوت و جلوت میں، آہستہ، اونچی آواز میں بات کرنا، ماں باپ کو اف تک کہنا یا محبت بھرے انداز میں محترمانہ اور شریفانہ لہجہ میں بات کرنا، محرم یا نامحرم سے بات کرنا، حق کی گواہی، جھوٹی گواہی، اچھا مشورہ، برا مشورہ، سچ، جھوٹ، غیبت، الزام، چغلخوری، طعنہ، خوشامدگوئی، جھوٹا وعدہ دینا، سنجیدگی سے یا سوچے سمجھے بغیر بات کرنا ، مومن کو خوش کرنے کے لئے، لوگوں کو تکلیف دینے کے لئے، مذاق اڑاتے ہوئے، جھوٹا مزاح کرتے ہوئے، وقت سے اچھا فائدہ اٹھانے کے لئے یا خالی وقت کو صرف گزارنے کے لئے بات کرنا، حق کا مطالبہ، باطل کا مطالبہ، زبان سے حق والوں کی مدد، زبان سے باطل والوں کی مدد،تعریف کرنا، عیب بیان کرنا، گالی گلوچ، دو زبانیں اختیار کرنا (ظاہر اور باطن میں فرق ڈالنا یعنی بات میں منافقت)، عیب چھپانا، راز فاش کرنا، گانے اور غنا، بیجا اور فضول بحث، علماء سے سوال کرنا عالم بننے کے لئے، علماء سے سوال کرنا ان کو آزمانے کے لئے اور غیرعلماء سے سوال کرنا ان پر اپنی فوقیت ثابت کرنے کے لئے، لوگوں کو علمی مسائل بتانا، علم کے بغیر جواب دینا، من گھڑت پشینگوئی، احسان جتلانا، مسلمان بھائی کی بیجا قطع کلامی کرنا، ظالموں کے ظلم کے لئے عذر و بہانے پیش کرنا، لوگوں کو برے نام سے پکارنا،گنہگار اور ظالم کو حق کی نصیحت کرنا یا اسے دادتحسین دے کر گناہ پر مزید پختہ کردینا، مومن کو خوش کرنا یا مومن کو ڈرانا، اللہ کے عطاکردہ رزق پر راضی رہتے ہوئے شکر کرنا یا اسے کم سمجھ کر لوگوں کو اپنے فقر کا اظہار کرنا، فاسق کو باعزت سمجھتے ہوئے اس کا تعارف کروانا، اللہ کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کہنا، شرعی احکام کا قیاس کی بنیاد پر فتوا دینا، محبت، غصہ، مذمت اور دشمنی کا اظہار، قرآن کی آیات کی تصدیق کرنا یا ان کو جھٹلانا،توحید، عدل، نبوت، امامت اور قیامت کا اقرار کرنا یا جھٹلانا، جھوٹے دعوے کرنا، دعا یا بددعا کرنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا یا نعوذباللہ معروف سے منع کرنا اور منکر کا حکم دینا۔ نیز ان کے علاوہ کئی دوسری باتیں بھی ہیں جو زبان سے نکلتی ہیں کہ اگر ان میں سے مفید بات کو اختیار کیا جائے تو انسان کا فائدہ ہے اور اگر فضول بات کو اختیار کیا جائے تو انسان کا دنیا و آخرت میں نقصان ہے۔
نتیجہ: حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی اس روایت سے جو آپؑ نے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) سے نقل کی ہے، واضح ہوتا ہے کہ انسان کو فضول بات سے دستبردار ہوجانا چاہیے اور صرف فائدہ مند بات کرنا چاہیے،کیونکہ فرشتے ان سب باتوں کو لکھ رہے ہیں اور سب باتیں اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش کی جارہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] الأمالى صدوق، ص 85، ح53۔
[2] سورہ ق، آیت 17، 18۔
[3] ترجمہ از مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
[4] سورہ مومنون، آیت 1 سے 3 تک۔
[5] ترجمہ از مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment