خلاصہ: بچے کے بچپن کے زمانے کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہیے، کیونکہ اسی دور میں بچے کے اخلاقی صفات کی بنیاد قائم ہونے لگتی ہے
بچے کی تعلیم و تربیت کے لئے پہلا مدرسہ، گھر کا ماحول ہے اور بہت سارے اخلاقی صفات، گھر میں پروان چڑھتے ہیں۔ گھر کا اچھا یا برا ماحول اخلاقی اچھے صفات یا برے صفات کے بڑھنے پر گہرا اثر کرتے ہیں اور درحقیقت انسان کے اخلاق کی بنیاد گھر سے قائم ہونی چاہیے۔
اس مسئلہ کی اہمیت تب واضح ہوتی ہے جب:
اولاً: بچہ بہت زیادہ اثر لیتا ہے۔
ثانیاً: جو اثرات اس کمسنی میں پڑتے ہیں، زیادہ باقی رہنے والے اور پائدار ہوتے ہیں۔ حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "الْعِلْمُ مِنَ الْصِّغَرِ كَالْنَّقْشِ فِى الْحَجَرِ"، "بچپن میں علم، پتھر پر نقش (کندہ کرنے) کی طرح ہے (جوطویل عرصے تک باقی رہتا ہے)"۔ [بحارالانوار، ج۱، ص۲۲۴]
بچہ بہت سارے اخلاقی صفات کو ماں باپ اور بڑے بھائیوں اور اپنی بہنوں سے سیکھتا ہے، شجاعت، سخاوت، صداقت، امانت وغیرہ جیسے صفات ہیں جو بچے آسانی کے ساتھ گھرانے کے بڑوں سے سیکھ لیتے ہیں اور جھوٹ اور خیانت جیسے صفات کو بھی ان سے سیکھ لیتے ہیں۔
ماں باپ کے اخلاقی صفات اور راستے سے بھی کم و بیش اولاد کو منتقل ہوتے ہیں، جو وراثت کا راستہ ہے، وراثت صرف جسمانی صفات کی حامل نہیں ہوتی، بلکہ اخلاقی اور روحانی صفات کو بھی اولاد میں منتقل کردیتی ہے، اگرچہ بعد میں اس میں تبدیلی ہوسکتی ہے اور اس میں جبری کیفیت نہیں ہے جو اولاد سے ذمہ داری کو بالکل ہٹا دے۔
*اصل مطالب ماخوذ از: اخلاق در قرآن، آیت اللہ مکارم شیرازی، ج۱، ص۱۶۴۔
* بحارالانوار، علامہ مجلسی، موسسۃ الوفاء، ج۱، ص۲۲۴۔
Add new comment