خلاصہ: ماحول کا انسان پر اس قدر اثر ہوتا ہے کہ انسان کے اچھے بننے یا برے بننے میں اس کا خاص کردار ہے۔
معاشرتی ماحول انسان کی افکار اور اعمال پر بہت اثرانداز ہوتا ہے، کیونکہ انسان اپنے بہت سارے صفات کو ماحول سے لیتا ہے، اسی لیے پاکیزہ ماحول میں عموماً پاکیزہ لوگ پروان چڑھتے ہیں اور برے ماحول میں برے لوگ۔
البتہ یہ بات صحیح ہے کہ انسان ناپاک ماحول میں پاکیزہ زندگی گزار سکتا ہے اور ادھر سے ہوسکتا ہے کہ کوئی آدمی پاکیزہ ماحول میں بھی رہ کر گناہوں کا ارتکاب کرے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ماحول کا انسان پر اثر ہوتا ہے۔
سورہ اعراف کی آیت ۵۸ میں ارشاد الٰہی ہے: "وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ"، "اور جو زمین عمدہ و پاکیزہ ہوتی ہے خدا کے حکم سے اس کی نبات (پیداوار) خوب نکلتی ہے اور جو خراب اور ناکارہ ہوتی ہے تو اس کی پیداوار بھی خراب اور بہت کم نکلتی ہے ہم اسی طرح شکر گزار قوم کے لیے اپنی نشانیاں الٹ پھیر کر بیان کرتے ہیں"۔
ناپاک ماحول، اخلاقی فضیلتوں کا دشمن ہوتا ہے اور پاکیزہ ماحول تہذیبِ نفس کے لئے بہترین جگہ ہے۔
ناپاک ماحول صرف اخلاقی مسائل میں نہیں بلکہ اعقادی مسائل پر بھی اثرانداز ہوتا ہے، جیسا کہ بنی اسرائیل سالہا سال روحانی اور معنوی طور پر اور توحید اور اصول دین کے لحاظ سے حضرت موسی (علیہ السلام) سے تعلیم حاصل کرنے کے باوجود، دریا کے شگافتہ ہونے اور فرعونیوں کے چنگل سے نجات پانے جیسے معجزات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود، شام اور مقدس سرزمینوں کی طرف جاتے ہوئے راستے میں جونہی ان کا ایک بت پرست قوم سے گزر ہوا تو اس حد تک ان پر اس ناپاک ماحول کا اثر پڑا کہ انہوں نے کہا: "يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ"، (۱) "اے موسیٰ ہمارے لئے بھی ایک الٰہ بنا دیں جیسے ان کے الٰہ ہیں۔ موسیٰ نے کہا تم بڑے ہی جاہل لوگ ہو"۔
پھر حضرت موسی (علیہ السلام) نے بت پرستی کے کچھ نقصان بیان فرمائے۔
عجیب بات یہ ہے کہ حضرت موسی (علیہ السلام) کی وضاحت کے بعد بھی ان میں ماحول کا زہریلا اثر باقی رہا کہ جب سامری نے حضرت موسی (علیہ السلام) کے چند دن کی عدم موجودگی میں موقع پاکر سونے کا بت بنایا اور ان جاہل لوگوں کی اکثریت کو توحید سے نکال کر شرک اور بت پرستی میں ڈال دیا۔
* (۱) سورہ اعراف، آیت ۱۳۸۔
* ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* اصل مطالب ماخوذ از: اخلاق در قرآن، آیت اللہ مکارم شیرازی، ج۱، ص۱۴۹۔
Add new comment