خلاصہ: اصول کافی کی تشریح کرتے ہوئے حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی اس حدیث کی وضاحت کی جارہی ہے جو عمل کے پاکیزہ ہونے کے بارے میں ہے۔
حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) نے جناب ہشام ابن حکم سے فرمایا: "يَا هِشَامُ، كَيْفَ يَزْكُو عِنْدَ اللهِ عَمَلُكَ، وَأَنْتَ قَدْ شَغَلْتَ قَلْبَكَ عَنْ أَمْرِ رَبِّكَ، وَأَطَعْتَ هَوَاكَ عَلى غَلَبَةِ عَقْلِكَ؟!"، "اے ہشام، کیسے تمہارا عمل اللہ کی بارگاہ میں پاکیزہ ہوجائے، جبکہ تم نے اپنے دل کو اپنے ربّ کے حکم سے روکتے ہوئے (دوسری چیزوں میں) مصروف کردیا ہے اور اپنی (نفسانی) خواہش کو اپنی عقل پر غالب کرنے میں (اپنی نفسانی خواہش کی) فرمانبرداری کی ہے"۔ [الکافی، ج۱، ص۱۷]
اس حدیث سے چند نکات ماخوذ ہوتے ہیں:
۱۔ انسان کے اعمال پاکیزہ ہونے چاہئیں۔
۲۔ اعمال کے پاکیزہ ہونے میں رکاوٹیں بھی پیش آتی ہیں۔
۳۔ یہ رکاوٹیں صرف گناہوں اور برائیوں کوہی جنم نہیں دیتیں، بلکہ نیک اعمال کے پاکیزہ ہونے سے بھی رکاوٹ بنتی ہیں۔
۴۔ نیکیوں کی کثرت معیار نہیں ہے، بلکہ اس نیکی کی اہمیت ہے جو پاکیزہ ہو۔
۵۔ صرف نیک عمل کرلینا، کمال نہیں ہے، بلکہ وہ نیکی کمال کا باعث بنتی ہے جس کے پاکیزہ ہونے کے سامنے رکاوٹیں نہ ہوں۔
۶۔ عمل کے پاکیزہ ہونے میں رکاوٹیں یہ ہیں:
(الف) دل کے رُخ کو اللہ کے حکم سے ہٹا کر دوسری چیزوں میں مصروف کردینا۔
(ب) اپنی نفسانی خواہشات کی فرمانبرداری کرتے ہوئے اسے اپنی عقل پر غالب کردینا۔
۷۔ ان رکاوٹوں کو پیدا کرنے والا خود انسان ہے، لہذا انسان ان کو ہٹا بھی سکتا ہے۔
۸۔ اگر انسان اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کے حکم میں مصروف رکھے اور اپنی نفسانی خواہشات کی فرمانبرداری نہ کرے تو تب اس کا عمل اللہ کی بارگاہ میں پاکیزہ ہوسکتا ہے۔
* الکافی، شیخ کلینی، دار الكتب الاسلامية، ج۱، ص۱۷۔
Add new comment