خلاصہ: اصول کافی کی تشریح کرتے ہوئے حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی اس حدیث کی وضاحت کی جارہی ہے جو عمل کے پاکیزہ ہونے کے بارے میں ہے۔
حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) نے جناب ہشام ابن حکم سے فرمایا: "يَا هِشَامُ، كَيْفَ يَزْكُو عِنْدَ اللهِ عَمَلُكَ، وَأَنْتَ قَدْ شَغَلْتَ قَلْبَكَ عَنْ أَمْرِ رَبِّكَ، وَأَطَعْتَ هَوَاكَ عَلى غَلَبَةِ عَقْلِكَ؟!"، "اے ہشام، کیسے تمہارا عمل اللہ کی بارگاہ میں پاکیزہ ہوجائے، جبکہ تم نے اپنے دل کو اپنے ربّ کے حکم سے روکتے ہوئے (دوسری چیزوں میں) مصروف کردیا ہے اور اپنی (نفسانی) خواہش کو اپنی عقل پر غالب کرنے میں (اپنی نفسانی خواہش کی) فرمانبرداری کی ہے"۔ [الکافی، ج۱، ص۱۷]
انسان جو اعمال بجالاتا ہے اگر مکمل عقل اور زیادہ توجہ کے ساتھ بجالائے اور نفسانی خواہشات ان کو برباد نہ کریں تو تب وہ اعمال پروان چڑھیں گے، کبھی انسان کی نماز نفسانی خواہش کے ساتھ ہوتی ہے اور نماز میں اس کی توجہ نہیں ہوتی اور کبھی آدمی نماز پڑھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف اور نماز کے سب پہلوؤں پر توجہ کرتا ہے، یہ نماز انسان کی ترقی و کمال کا باعث بنتی ہے، دوسرے اعمال بھی اسی طرح ہیں، اگر اللہ کے لئے اور توجہ کے ساتھ بجالائے جائیں تو ترقی و کمال کا باعث بنتے ہیں۔ [ماخوذ از: بیانات استاد محسن فقیہی]
ایک چیز جو انسان کے دل کو مصروف کردیتی ہے، دنیا ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے جناب ابوذر (رحمۃ اللہ علیہ) سے فرمایا: "إِنَّ الدُّنيا مَشغَلَةٌ لِلقُلوبِ وَالأَبدانِ، وَإِنَّ اللّه َ تَبارَكَ وَتَعالى سائِلُنا عَمَّا نَعَّمَنا في حَلالِهِ فَكيفَ بِما أَنعَمنا في حَرامِهِ؟"، "یقیناً دنیا دلوں اور جسموں کی مصروفیت ہے، جبکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی حلال نعمتوں کے بارے میں سوال کرے گا تو پھر اس کی حرام نعمتوں کی کیا صورتحال ہوگی (جنہیں انسان نے حرام راستے سے حاصل کیا ہو)۔ [بحارالانوار، ج۷۷، ص۸۳]
لہذا دنیا پسندی، انسان کی سوچ کو بھی مصروف کرلیتی ہے اور انسان کے بدن کو بھی، تو آدمی کا نہ دل سکون میں رہتا ہے اور نہ بدن۔
* الکافی، شیخ کلینی، دار الكتب الاسلامية، ج۱، ص۱۷۔
* وضاحت ماخوذ از: بیانات استاد محسن فقیہی۔
* بحارالانوار، علامہ مجلسی، موسسۃ الوفاء، ج۷۷، ص۸۳۔
Add new comment