خلاصہ: انسان کے اعمال اس کے اخلاق کی نشاندہی کرتے ہیں اور یہ تعلق یکطرفہ نہیں بلکہ دوطرفہ ہے۔
انسان کے اعمال، اس کے اخلاق اور مزاج سے جنم لیتے ہیں اور اندرونی مزاج، انسان کے اخلاق میں ظاہر ہوتا ہے، یہاں تک کہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان کے اعمال اور کردار، اس کے اندرونی مزاج کا نتیجہ ہے، لیکن دوسری طرف سے انسان کے اعمال بھی اس کے اخلاق کو بناتے ہیں، یعنی ایک اچھے یا برے کام کو دہرانا، رفتہ رفتہ اندرونی حالت میں بدل جاتا ہے اور اسے جاری رکھنا ایک اخلاقی ملکہ کے بننے کا باعث بنتا ہے، چاہے اچھی صفت ہو یا بری صفت، اسی لیے تہذیبِ نفس کے لئے ایک فائدہ مند طریقہ کار، اعمال کی تہذیب ہے۔
سورہ مطفّفین کی آیت ۱۴ میں ارشاد الٰہی ہورہا ہے: "كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ"، "ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زَنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کرتے ہیں"۔
اس آیت میں "مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ" میں فعل مضارع سے استمرار یعنی جاری رہنا اور (گناہ) کرتے رہنا واضح ہوتا ہے۔ برے اعمال کا انسان کے دل پر خاص اثر پڑتا ہے اور دل پر زنگ چڑھ جاتا ہے۔
لہذا کسی برے عمل کو دہرانا، انسان کی روح میں جڑ بناسکتا ہے اور روح کو اپنے رنگ میں ڈھال سکتا ہے اور پھر وہ برے کاموں کو جنم دے گا۔
اسی لیے احادیث میں حکم دیا گیا ہے کہ گناہ کے بعد فورا توبہ کرنی چاہیے، یعنی توبہ کے پانی کے ذریعے اس گناہ کے اثرات کو اپنے دل اور روح سے ڈھو ڈالا جائے تا کہ گناہ دہرایا نہ جائے اور بری صفت میں ڈھل نہ جائے۔
اُدھر سے نیک کاموں کے بارے میں حکم دیا گیا ہے کہ انہیں اس قدر دہرایا جائے کہ وہ عادت بن جائیں۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* اصل مطالب ماخوذ از: اخلاق در قرآن، آیت اللہ مکارم شیرازی، ج۱، ص۱۹۴۔
Add new comment