خلاصہ: دین اسلام کے پانچ ستون ہیں جن میں سے ایک ستون نماز ہے لیکن یہ ستون اور اعمال بھی تب قبولیت کے درجہ پر پہنچ سکتے ہیں جب اہل بیت (علیہم السلام) کی ولایت ہو، اس مقالہ میں نماز اور ولایت کا باہمی تعلق بتایا گیا ہے جو امام محمد باقر (علیہ السلام) اور دیگر معصومین (علیہم السلام) کی احادیث کی روشنی میں بیان ہوا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دین اسلام، مکمل دین ہے اور اس قیامت تک رہنے والے دین کو ستون کی ضرورت ہے۔ روایات کی روشنی میں معلوم ہوجاتا ہے کہ دین اسلام کے کئی ستون ہیں کہ جن پر یہ دین مقدس قائم ہے۔
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: " بُنِيَ الإسلامُ على خَمْسَةِ أشْياءَ: عَلى الصَّلاةِ، و الزَّكاةِ، و الحَجِّ، و الصّومِ، و الوَلايةِ. قالَ زُرارَةُ: فقلتُ: و أيُّ شَيْءٍ مِنْ ذلِكَ أفْضَلُ؟ فقالَ: الوَلايةُ أفْضَلُ؛ لأنّها مِفْتاحُهُنَّ، و الوالي هُوَ الدَّليلُ عَلَيْهِنَّ"[1]، "اسلام پانچ چیزوں پر قائم ہے: نماز، زکات، حج، روزہ اور ولایت پر، زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: کون سی چیز ان میں سے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ولایت افضل ہے، کیونکہ ولایت ان (سب) کی کنجی ہے اور صاحب ولایت ان کی طرف راہنما ہے"۔
ان ستونوں میں سے ایک ستون نماز ہے۔ نماز اس لیے دین اسلام کا ستون ہے کہ اس کے بغیر دین بے معنی اور مہمل ہوجاتا ہے، جیسا کہ خیمہ ستون کے بغیر خیمہ نہیں رہتا۔ کیونکہ حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) ایک اور حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں: "الصَّلاةُ عَمُودُ الدّينِ، مَثَلُها كَمَثَلِ عَمُودِ الْفِسْطاطِ، إذا ثَبَتَ الْعَمُودُ ثَبَتَ الاْوْتادُ وَ الاْطْناب، وَ إذا مالَ الْعَمُودُ وَانْكَسَرَ لَمْ يَثْبُتْ وَ تَدٌ وَ لا طَنَبٌ"[2]، "نماز، دین کا ستون ہے، نماز کی مثال خیمہ کے ستونوں کی طرح ہے، جب ستون مضبوط ہو تو کیل اور رسیاں بھی مضبوط ہوں گی اور جب ستون گرجائے اور ٹوٹ جائے تو کوئی کیل اور رسی مضبوط نہیں رہ سکتی۔
نماز کے سلسلہ میں مذکورہ بالا احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ نماز اگرچہ دین کا ستون ہے لیکن کوئی ایسی چیز بھی ہے جو نماز سے افضل ہے اور اس کا مقام نماز سے زیادہ ہے، وہ ولایت ہے۔ آپ نے ولایت کی افضلیت کی دلیل بھی بیان فرمادی کہ نماز، زکات، حج اور روزہ کی کنجی ولایت ہے اور صاحب ولایت ان چیزوں کی طرف جن میں سے ایک نماز ہے، راہنمائی کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اگر انسان ولایت پر ایمان لائے گا تب صاحب ولایت اور امام سے نماز اور دیگر مذکورہ چیزوں کی طرف راہنمائی حاصل کرپائے گا، ورنہ اگر ولایت پر ایمان ہی نہ لائے تو کس کے ذریعے نماز اور دیگر امور کی طرف راہنمائی حاصل کرتے ہوئے اپنے اسلام کی بنیاد کو قائم کرسکتا ہے؟ جو ولایت پر ایمان نہیں لاتا اگرچہ نماز، زکات، روزہ اور حج کو باقاعدہ بجالاتا رہے لیکن ان سب کی کنجی اس کے پاس نہیں ہے، جب کنجی اور سب بنیادوں میں سے افضل بنیاد اس کے پاس نہیں ہے تو اس کا اسلام کس چیز پر قائم ہے؟! لہذا ان عبادات کے ذریعے دین اسلام کو قائم کرنے کے لئے دو اہم چیزوں کی ضرورت ہے: کنجی کہ جو ولایت ہے اور وہ صاحب ولایت جو ان عبادات کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔
یہاں تک واضح ہوگیا کہ دین کا ستون نماز ہے اور نماز کی کنجی ولایت ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دین کے لئے صرف نماز ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ولایت کی بھی ضرورت ہے۔
ایک اور حدیث میں بھی امام محمد باقر (علیہ السلام) اسلام کے ستونوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ولایت کی اہمیت اور مقام کو بیان فرماتے ہیں: " بُنِيَ الإسلامُ على خَمْسٍ : عَلى الصَّلاةِ ، و الزَّكاةِ ، و الصَّومِ ، و الحَجِّ ، و الوَلايةِ ، و لَمْ يُنادَ بِشَيْءٍ كَما نُودِيَ بالوَلايةِ "[3]، "اسلام پانچ چیزوں پر قائم ہے: نماز، زکات، روزہ، حج اور ولایت پر، اور کسی چیز کے لئے ولایت جتنی تاکید نہیں ہوئی"۔
شریعت کے احکام اور فرائض مختلف موقعوں پر نازل ہوتے رہے لیکن ایک ایسا وقت آیا جب ان کا نزول رک گیا لیکن ایک اہم فریضہ کے نازل ہوجانے کے بعد رکا، وہ ایسا فریضہ تھا جس سے دین کامل ہوگیا۔
حضرت باقرالعلوم (علیہ السلام) دوسری حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں: "كانَت الفَرِيضَةُ تَنْزِلُ بَعْدَ الفَرِيضَةِ الاُخْرى ، و كانَتِ الوَلايةُ آخِرَ الفرائضِ ، فأنْزَلَ اللّه ُ عزّ و جلّ » : اليَومَ أكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ «، يَقولُ اللّه ُ عزّ و جلّ : لا اُنْزِلُ عَلَيْكُمْ بَعْدَ هذهِ فَرِيضَةً ، قد أكْمَلْتُ لَكُمُ الفَرائضَ "[4]، "فریضہ کے بعد فریضہ نازل ہوتا تھا اور ولایت آخری فریضہ تھا اور اللہ عزوجل نے (آیت) "آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کردیا ہے"، اللہ عزوجل فرماتا ہے: اس فریضہ کے بعد میں تم پر (کوئی فریضہ) نازل نہیں کروں گا، (کیونکہ) میں نے تمہارے فرائض کو مکمل کردیا"۔
ولایت صرف سیاسی اور معاشرتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ولایت کی وسعت اور پھیلاو اتنا زیادہ ہے کہ ہر آدمی کے اعمال پر چھائی ہوئی ہے اور اعمال کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے، یہاں تک کہ انسان کا ولایت پر ایمان جتنا طاقتور ہوگا اتنی اس کی عبادت زیادہ مقام کی حامل ہوگی، اور اگر وہ منجانب اللہ مقرر امام کی امامت پر ایمان نہیں رکھتا ہوگا تو اس کا کوئی عمل اللہ تعالی کی بارگاہ میں درجہ قبولیت تک نہیں پہنچے گا۔ چنانچہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "مَنْ لَمْ يَتَوَلَّنا لَمْ يَرْفَعِ اللَّهُ لَهُ عَمَلًا "[21]، " جو شخص ہماری ولایت کو قبول نہ کرے، اللہ اس کے کسی عمل کو بلند نہیں کرتا (قبول نہیں کرتا)"۔ اس کا مطلب نماز جو سب اعمال پر فوقیت رکھتی ہے، وہ بھی قبول نہیں ہوتی اگر ولایت اہل بیت (علیہم السلام) نہ ہو۔ یعنی اعمال کا دار و مدار ولایت پر ہے چاہے نماز ہو یا دیگر اعمال۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں: "وَ الَّذِی بَعَثَنِی بِالْحَقِّ نَبِیاً لَوْ أَنَّ رَجُلًا لَقِی اللَّهَ بِعَمَلِ سَبْعِینَ نَبِیاً ثُمَّ لَمْ یأْتِ بِوَلَایةِ أُولِی الْأَمْرِ مِنَّا أَهْلَ الْبَیتِ مَا قَبِلَ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفاً وَ لَا عَدْلًا"[5]، "قسم اس کی جس نے مجھے برحق، نبوت پر مبعوث کیا، اگر کوئی شخص قیامت کے دن ستر انبیا کے عمل کے ساتھ اللہ سے ملاقات کرے، لیکن ہم اہل بیت میں سے اولی الامر کی ولایت کے ساتھ نہ ہو تو اللہ اس سے نہ کوئی توبہ قبول کرے گا اور نہ فدیہ"۔ ولی امر جو اس وقت امام زمان (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) ہیں، اگر انسان ان سے اعتقادی اور قلبی رابطہ نہ رکھتے ہوئے ستر انبیا کے ظاہری اعمال کے ساتھ (روایت میں لفظ "لو" آیا ہے جس کے معنی "اگر" کے ہیں یعنی ایسا ہے تو محال لیکن پھر بھی اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اتنے اعمال کے ساتھ) اللہ تعالی سے ملاقات کرے تب بھی اللہ اس سے کوئی توبہ اور فدیہ قبول نہیں کرے گا۔
ادھر سے اگر آدمی کے پاس ولایت ہو لیکن نماز نہ پڑھے یا نماز پڑھے مگر سستی اور غفلت کے ساتھ اور حقیر سمجھ کر تو اس نے اہل بیت (علیہم السلام) کے فرامین اور احکام کو نظرانداز کردیا ہے اور ان حضرات نے نماز نہ پڑھنے کے جو نقصانات بیان کیے ہیں، آدمی ان سے متاثر نہیں ہوا، جبکہ ولایت اور اہل بیت (علیہم السلام) سے محبت کا ضروری تقاضا یہ ہے کہ ولایت اہل بیت (علیہم السلام)، انسان کی بات، عمل اور کردار میں ظاہر ہونی چاہیے ورنہ یہ محبت ایسا دعوی ہے جس کے دعویدار کے پاس دلیل نہیں ہے۔ جب حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی رحلت کا وقت قریب ہوا، آپ نے فرمایا:" إنَّ شَفاعَتَنا لَن تَنالَ مُستَخِفّا بِالصَّلاةِ "[6] "نماز کو حقیر سمجھنے والے تک یقیناً ہماری شفاعت ہرگز نہیں پہنچے گی۔" نماز نہ پڑھنا تو الگ بات ہے، اگر نماز کو حقیر ہی سمجھ لیا تو شفاعت سے آدمی محروم ہوجائے گا۔ یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ نماز کا اہل بیت (علیہم السلام) کی شفاعت سے گہرا اور عظیم تعلق ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) کی شفاعت حاصل کرلینا آسان نہیں، کیونکہ نماز کو حقیر نہ سمجھنے کے مختلف پہلو اور شرائط ہیں جن کا خیال رکھتے ہوئے آدمی اس بری صفت سے محفوظ رہ سکتا ہے اور جب اس بری صفت سے محفوظ رہ گیا تب شفاعت کی امید رکھ سکتا ہے۔ کیا جس نماز کو معاشرہ میں قائم کرنے کے لئے اہل بیت (علیہم السلام) ظلم برداشت کرکے شہید ہوئے اسی نماز کو ہم حقیر سمجھیں جبکہ محبت اہل بیت (علیہم السلام) کے دعویدار ہیں۔ کیا جس نماز کو بچانے کے لئے اہل بیت (علیہم السلام) نے اپنی جان دے کر ہم تک پہنچایا، ہم اس نماز کو ضائع کردیں، حقیر سمجھیں یا پڑھنا چھوڑ دیں۔ یہ کیسی جفا ہے اہل بیت (علیہم السلام) کے حق میں!!!
نتیجہ: دین اسلام کا ستون نماز ہے، اگر انسان کی نماز اللہ تعالی کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق ہو تو اس کا دین قائم ہے ورنہ نماز چونکہ ستون کی حیثیت رکھتی ہے تو جس کی نماز گری ہوئی ہو اس کا دین بھی گرا ہوا ہے، اور نماز بھی تب درجہ قبولیت پر پہنچ سکتی ہے جب ولایت اہل بیت (علیہم السلام) پر ایمان ہو، لہذا جس کے پاس ولایت نہیں اس کے پاس نہ نماز ہے نہ اسلام ہے لیکن جس کے پاس ولایت ہے اسے خیال رکھنا چاہیے کہ نماز کو انہی آداب و شرائط کے ساتھ بجالائے جو اہل بیت (علیہم السلام) نے ارشاد فرمائے ہیں تا کہ اس کی نماز کہ جو ستون ہے، اس کے ذریعہ اسلام کو قائم کرسکے۔ اہل بیت (علیہم السلام) نے مختلف احادیث میں نماز کی متعدد شرائط بیان فرمائی ہیں، ان پر عمل کرنا چاہیئے کیونکہ ہم معصومین (علیہم السلام) کی ولایت کے معتقد ہیں تو اس اعتقاد کا لازمہ یہ ہے کہ ان کے فرامین پر عمل پیرا ہوں، ورنہ ولایت پر معتقد ہوتے ہوئے بھی اگر نماز کو حقیر سمجھا تو اہل بیت (علیہم السلام) کی شفاعت سے محروم ہوجائیں گے، بنابریں نماز کو ولایت کی ضرورت ہے اور ولایت پر اعتقاد کے بعد نماز کو پابندی، باقاعدگی سے بجالانا چاہیے، اس لیے کہ نماز بغیر ولایت کے، کھوکھلی نماز ہے اور ولایت نماز کے بغیر، شفاعت اور دیگر الطاف سے محرومیت کا باعث ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] الكافي : 2 / 18 /5۔
[2] وسائل الشيعه: ج 4، ص 27، ح 4424۔
[3] الكافي : 2 / 18 / 3۔
[4] الكافي: 1 / 289 / 4
[5] امالي شيخ مفيد، حدیث 8، صفحه 115۔
[6] میزان الحکمہ، ج5، ص588۔
Add new comment