خلاصہ: علم حاصل کرنے کے ساتھ علم پر عمل کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ علم عمل کرنے کے لئے ہوتا ہے۔
سورہ بقرہ کی آیت ۴۴ میں ارشاد الٰہی ہے: "أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ"، "کیا تم دوسرے لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتابِ خدا کی تلاوت کرتے رہتے ہو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے"۔
حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "عِلمُ الْمُنافِقِ في لِسانِهِ .عِلْمُ الْمُؤْمِنِ في عَمَلِهِ"، "منافق کا علم اس کی زبان میں ہے، مومن کا علم اس کے عمل میں ہے"۔ [غررالحکم، ص۴۶۲، ح۳، ح۴]
سستی اور غفلت، گناہ کرنا، ریا اور دکھاوا، منافقت اور دنیا کی محبت ایسے اسباب ہیں جن کی وجہ سے انسان اپنے علم پر عمل نہیں کرتا۔
اپنے علم پر عمل نہ کرنے کے نقصانات یہ ہیں: اپنی زندگی کو ضائع کرنا، زندگی میں کامیاب نہ ہونا، انسانیت کے نچلے درجات پر رُک جانا، توفیقات الٰہی کا چھِن جانا، مناجات کی لذت سے محرومیت، آخرت کا عذاب۔
جب ان آیات اور احادیث کو پڑھا جائے اور ان پر غور کیا جائے جو انسان کو اپنے علم پر عمل کرنے کی ترغیب دلاتی ہیں تو انسان آسانی سے متوجہ ہوسکتا ہے کہ اسے اپنے علم پر عمل کرنا چاہیے اور اپنی شرعی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے۔
جو آیات اور احادیث بے عمل علماء کی مذمت کرتی ہیں، ان کو پڑھنے سے اور نیز بے عمل علماء کے انجام کا مطالعہ کرنے سے انسان خوفزدہ ہوکر غفلت کی نیند سے جاگ سکتا ہے کہ مجھے اپنے علم پر ضرور عمل کرنا چاہیے۔
اپنے علم پر عمل کرنے کے اسباب کو یوں بڑھایا جاسکتا ہے کہ آدمی باعمل علماء کی محفل میں بیٹھے، ایسا علم حاصل کرے جو فائدہ مند اور قابلِ عمل بھی ہو، زیادہ باتیں کرنے سے پرہیز کرے اور اس کے بجائے زیادہ عمل کرے، علم حاصل کرنے اور عمل کرنے کے وقت میں توازن اور تعادل قائم کرے۔
واضح رہے کہ ہر آدمی کو اپنے علم جتنا عمل ضرور کرنا چاہیے چاہے اس کا علم کم ہی کیوں نہ ہو، لہذا ایسا نہیں ہے کہ علم پر عمل کرنا صرف دینی علماء سے متعلق ہے۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* غررالحکم و دررالکلم، آمدی، ص۴۶۲، ح۳، ح۴۔
Add new comment