خلاصہ: علم حاصل کرنے کی انتہائی زیادہ اہمیت ہے جسے قرآن اور احادیث کی روشنی میں پہچانا جاسکتا ہے۔
علم کی اہمیت اسقدر زیادہ ہے کہ پہلی سورہ جو رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نازل ہوئی سورہ اقرا تھی۔ یہ سورہ لفظ "اقرا" سے شروع ہوتی ہےیعنی "پڑھو"۔ پھر تیسری سے پانچویں آیت میں ارشاد الٰہی ہورہا ہے: "اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ. الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ .عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ"، "پڑھئیے! اور آپ کا پروردگار بڑا کریم ہے۔ جس نے قَلم کے ذریعہ سے علم سکھایا۔ اور انسان کو وہ کچھ پڑھایا جو وہ نہیں جانتا تھا"۔
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: "أيُّما ناشٍ نَشَأَ فِي العِلمِ وَالعِبادَةِ حَتّى يَكبُرَ أعطاهُ اللّه ُ تَعالى يَومَ القِيامَةِ ثَوابَ اثنَينِ وسَبعينَ صِدّيقاً"۔ جو جوان علم اور عبادت میں پروان چڑھے یہاں تک کہ بڑا ہوجائے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن بہتّر صدیقوں کا ثواب عطا فرمائے گا۔ [بحار الأنوار، ج۱، ص۱۸۵]
اگر انسان گہری نظر سے اپنی زندگی کے بارے میں سوچے تو اس بات تک پہنچ سکتا ہے کہ علم کو جتنا اچھے طریقے سے حاصل کرے گا اور اس پر عمل کرے گا، اتنا وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوگا، لیکن اگر علم حاصل نہ کرے اور مختلف طرح کی کھیل کود میں اپنی جوانی کو تباہ کرکے بڑھاپے تک پہنچ جائے تو اس نے قرآن کریم کی آیات اور اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات سے فیضیاب ہونے کے لئے کوشش نہیں کی، درحقیقت اس نے علم کے ان دو سمندروں کو چھوڑ کر، اپنی خیالی سوچوں، نفسانی خواہشوں اور لوگوں سے لاحاصل باتوں میں زندگی گزار دی جن کی وجہ سے نہ دنیا میں دینی تعلیمات حاصل کیں اور نہ آخرت کے بلند درجات تک پہنچنے کے لئے کوشش کی۔
* ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* بحار الأنوار، علامہ مجلسی، مؤسسةالوفاء، ج۱، ص۱۸۵۔
Add new comment