خلاصہ: نیک عمل کے بارے میں جب انسان غوروخوض کرتا ہے تو اس کے لئے کچھ اور باتیں بھی واضح ہوتی ہیں جن کا تعلق اس نیک عمل سے ہوتا ہے۔
انسان جب نیک عمل کرتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ اس کے صرف ظاہر کو بجالائے اور اس کے ساتھ کسی قسم کا غوروخوض نہ کرے، اگر ایسا کرے تو اس عمل کی حقیقت اور باطن کو نہیں پہچان سکتا۔ لیکن اگر نیک کام کرنے سے پہلے اور دورانِ عمل اور انجام دینے کے بعد اس کے بارے میں غور و فکر کرے تو اس کے لئے مختلف حقائق واضح ہوسکتے ہیں۔
مثلاً نماز کی انتہائی اہمیت اور مقام کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ نماز سے پہلے خیال رکھتا ہے کہ نماز کو فضیلت کے وقت پر بجالانا ہے، لہذا وہ اذان سے کچھ دیر پہلے وضو کرکے نماز کے لئے تیار ہوجاتا ہے، پھر جب نماز پڑھتا ہے تو حضورِ قلب اور خضوع و خشوع کے ساتھ پڑھتا ہے اور اس کی توجہ نماز میں ہوتی ہے نہ کہ نماز سے باہر اپنے دوسرے کاموں کی طرف، پھر نماز کو ختم کرنے کے بعد وہ خیال رکھتا ہے کہ اس نماز کی حفاظت کرے اور گناہوں سے پرہیز کرے۔
یا مثال کے طور پر جب روزہ رکھتا ہے تو ایسا نہیں کہ وہ صرف کھانے پینے اور روزے کے دیگر مبطلات سے پرہیز کرے، بلکہ ان پرہیزوں کے ساتھ ساتھ روزے کے دوران اپنے ہاتھ، پاؤں، زبان، آنکھ اور دل اور جسم کے دیگر اعضا کا بھی خیال رکھتا ہے کہ ان کے ذریعے گناہ کا ارتکاب نہ کرے اور روزہ کے مقصد اور نتیجہ کے بارے میں غور کرتا ہے کہ روزے کا نتیجہ حاصل کرلے جو"تقویٰ اور پرہیزگاری" ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت ۱۸۳ میں ارشاد الٰہی ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ"، " اے ایمان والو! روزہ اس طرح تم پر لکھ دیا گیا ہے (فرض کردیا گیا ہے) جس طرح تم سے پہلے والوں پر لکھ دیا گیا تھا۔ تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ"۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment