خلاصہ: نیک عمل جس کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے، یقیناً اس میں پروردگار عالم کی حکمت و مصلحت پائی جاتی ہے، انسان نیک عمل کو حقیر نہ سمجھے، حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) کی حدیث کے مطابق نیک عمل کو حقیر نہ سمجھا جائے، اس مضمون میں چند نکات پیش کیے جارہے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ:
انسان بعض اوقات آسانی سے نیک اعمال بجالاسکتا ہے، لیکن لاپرواہی کی وجہ سے ان نیک اعمال کو نظرانداز کردیتا ہے۔ ہوسکتا ہے اس لاپرواہی کی وجہ یہ ہو کہ انسان ان نیک اعمال کو چھوٹا اور حقیر سمجھتا ہے اسی لیے ان کو بجالانے پر توجہ نہیں کرتا، لہذا اس عنوان سے متعلق جو حدیث حضرت عبدالعظیم حسنی نے حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) سے نقل کی ہے یہ ہے کہ حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) نے جناب محمد ابن مسلم سے فرمایا:
"يا مُحَمَّدَ بنَ مُسلِمٍ ! ... لا تَستَصغِرَنَّ حَسَنَةً أن تَعمَلَها؛ فإنَّكَ تَراها حَيثُ يَسُرُّكَ"[1]۔"اے محمد ابن مسلم! ... نیک عمل بجالانے کو ہرگز حقیر نہ سمجھو، کیونکہ تم اسے ایسے موقع [قیامت] میں دیکھوگے جب وہ تمہیں خوش کرے گا"۔
نیز اس حدیث شریف کا دوسرا حصہ اس بارے میں ہے کہ برے عمل کو بھی حقیر نہ سمجھا جائے، مگر اس مضمون میں صرف پہلے حصہ پر گفتگو ہورہی ہے۔s
مذکورہ حدیث قرآن کریم کی روشنی میں:
ارشاد الہی ہے: "فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ"[2]، "پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا"۔ [ترجمہ: علامہ ذیشان حیدر جوادی صاحب]
حضرت لقمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے سے فرمایا: "يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ"[3]، "اے بیٹا! اگر کوئی (نیک یا بد) عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو اور کسی پتھر کے نیچے ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں تو اللہ اسے لے ہی آئے گا بے شک اللہ بڑا باریک بین اور بڑا باخبر ہے"۔ [ترجمہ: علامہ محمد حسین نجفی صاحب]
سورہ بقرہ میں ارشاد الہی ہے: "وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ"[4]، "اور نماز قائم کرو۔ اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اور جو کچھ نیکی اور بھلائی اپنے لئے (زادِ راہ کے طور پر) آگے بھیج دوگے اسے اللہ کے یہاں موجود پاؤگے جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے"۔ [ترجمہ: علامہ محمد حسین نجفی صاحب]
واضح ہے کہ جو شخص اللہ تعالی کی اس خبر پر یقین رکھتا ہو اور جانتا ہو کہ اس کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی، آخرت کی دائمی زندگی میں اس کی خوشی کا باعث بنے گی تو کسی نیکی کے بجالانے میں کوتاہی نہیں کرے گا۔
تشریح اور چند اہم نکات:
۱۔ نیک عمل کی جانچ پڑتال کا معیار، اللہ تعالی کی بارگاہ میں قبولیت ہے، نہ کہ اس کا چھوٹا بڑا ہونا۔ جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کا ارشاد گرامی ہے: "مَن قَبِلَ اللَّهُ مِنهُ حَسَنَةً واحِدَةً لَم يُعَذِّبهُ أبَداً وَ دَخَلَ الجَنَّةَ"[5]، "جس سے اللہ ایک نیکی قبول کرلے اسے ہرگز عذاب نہیں کرے گا اور وہ جنت میں داخل ہوگا"۔
۲۔ انسان نہیں جانتا کہ اس کے کس عمل کو اللہ تعالی نے قبول کیا ہے کہ اس کی بنیاد پر اپنے نیک اعمال کو پرکھ سکے، لہذا کسی فرصت کو نیک اعمال بجالانے سے ضائع نہ ہونے دے۔ بنابریں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "إنَّ اللّه َ أخفى أربَعةً في أربَعةٍ : أخفى رِضاهُ في طاعَتِهِ، فلا تَستَصغِرَنَّ شَيئا من طاعَتِهِ، فرُبَّما وافَقَ رِضاهُ و أنتَ لا تَعلَمُ..."[6]، "یقیناً اللہ نے چار چیزوں کو چار چیزوں میں چھپایا ہے: اپنی رضا کو اپنی فرمانبرداری میں چھپایا ہے، لہذا اللہ کی کسی فرمانبرداری کو حقیر نہ سمجھو، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ فرمانبرداری اس کی رضا کے مطابق ہو اور تم اسے نہ جانتے ہو..."۔
۳۔ نیک عمل کو حقیر سمجھنا، اللہ تعالی کے حکم کی لاپرواہی ہے، یعنی جس عمل کو رب العالمین نے اہمیت دی ہے اور مصلحت کے تحت اس کو بجالانے کا حکم دیا ہے، حقیر سمجھنے والا شخص، اس عمل کو بے اہمیت سمجھ رہا ہے اور اس کی مصلحت کو نظرانداز کررہا ہے اور اس بات پر غور نہیں کررہا ہے کہ اسے نیک عمل کا حکم کس ذات نے دیا ہے۔
۴۔ نیک عمل کو حقیر سمجھنا، آخرت کے اجر و ثواب پر یقین نہ کرنے اور اس کی لاپرواہی کرنے کی علامت ہے، لہذا یہ لاپرواہی باعث بنتی ہے کہ انسان رفتہ رفتہ، بڑے نیک اعمال کو بھی اہمیت نہ دے اور عظیم نیک اعمال کو بھی نظرانداز کرنے لگ جائے۔
۵۔ نیک عمل کو حقیر سمجھنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انسان آخرت کی زندگی، قیامت کے حساب و کتاب اور غیب پر مضبوط اور گہرا ایمان نہیں رکھتا اور اپنے آپ کو دنیاوی خواہشات کے پورا کرنے میں مصروف کیے ہوئے ہے، وہ اسی چیز پر ایمان رکھتا ہے اور اسی کام کو بجالاتا ہے جسے آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس کی کوشش و محنت، دنیاوی حدوں تک محدود ہے۔
۶۔ نیک عمل، قیامت میں انسان کو خوش کرے گا۔ دنیا کی محبت اور قرآن و اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات کو حاصل نہ کرنا، انسان کی فکر کو اس طرح دنیاوی اور مادی ضوابط میں پابند کردیتا ہے کہ انسان کی سوچ، اس بات کا ادراک نہیں کرپاتی کہ انسان جو نیک عمل بجالاتا ہے، وہ عمل ایسا وجود پالیتا ہے جو اسے قیامت کے دن خوش کرے گا، جیسا کہ سورہ زلزال کی مذکورہ بالا آیت سے واضح ہوتا ہے کہ انسان اپنے عمل کو دیکھے گا چاہے اچھا عمل ہو یا برا عمل، اس کامطلب یہ ہے کہ عمل نظر آنے والی چیز ہے اور انسان کا اچھا عمل، انسان کو خوش کرے گا۔
مذکورہ روایت کی شبیہ روایات:
حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "اِعلَموا أنَّهُ لا يُصَغَّرُ ما ضَرُّهُ يَومَ القِيامَةِ، و لا يُصَغَّرُ ما يَنفَعُ يَومَ القِيامَةِ، فكونوا فيما أخبَرَكُمُ اللّه ُ كمَن عايَنَ"[7]، "جان لو کہ جو چیز قیامت کے دن نقصان دے، وہ چھوٹی نہیں ہے اور جو چیز قیامت کے دن فائدہ دے، وہ بھی چھوٹی نہیں ہے، لہذا جس چیز کے بارے میں اللہ نے تمہیں خبر دی ہے اس شخص کی طرح رہو جو آنکھ سے دیکھتا ہے"۔
نیز امام المتقین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "اِفعَلوا الخَيرَ و لا تُحَقِّروا مِنهُ شَيئا؛ فإنَّ صَغيرَهُ كَبيرٌ، و قَليلَهُ كَثيرٌ"[8]، “نیکی کرو اور کسی نیک کام کو حقیر نہ سمجھو، کیونکہ چھوٹی نیکی بھی بڑی ہے اور تھوڑی نیکی بھی زیادہ ہے ”۔
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "لا تَستَقِلَّ ما يُتَقَرَّبُ بِهِ إلَى اللّه ِ عَزَّ و جلَّ و لَو بِشِقِّ تَمرَةٍ"[9]، "جس چیز کے ذریعے اللہ عزوجل کے قریب ہوا جاسکے اسے قلیل نہ سمجھو اگرچہ آدھی کھجور (دینے) سے ہو"۔
حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "تَصَدَّقْ بِالشَّيءِ و إن قَلَّ، فإنَّ كُلَّ شَيءٍ يُرادُ بِهِ اللّه ُ و إن قلَّ، بَعدَ أن تَصدُقُ النِّيَّةُ فيهِ، عَظيمٌ"[10]، "صدقہ دو اگرچہ کم ہو، کیونکہ جو چیز اللہ کے لئے ہو اگرچہ کم ہو، اگر سچی نیت کے ساتھ ہو تو بڑی ہے"۔
نتیجہ: حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) اور دیگر معصومین (علیہم السلام) کی مذکورہ حکمت آمیز احادیث کی روشنی میں یہ درس ملتا ہے کہ اللہ تعالی نے اتنی نیکیوں کا جو حکم دیا ہے، ان میں سے انسان کسی نیکی کو حقیر مت سمجھے، کیونکہ نیکی انسان کو قیامت کے دن خوش کرے گی اور نیز اگر انسان اس نیکی کو بجالاتا تو ہوسکتا تھا کہ وہی نیکی اللہ کو پسند آجاتی اور اللہ کی رضا کا باعث بنتی اور جو کام اللہ کے لئے ہو وہ اگرچہ کم ہو، لیکن سچی نیت کی وجہ سے بڑا شمار ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] وسائل الشیعہ، ج11، ص247۔
[2] سورہ زلزال، آیت.7
[3] سورہ لقمان، آیت16۔
[4] سورہ بقرہ، آیت110۔
[5] ميزان الحكمہ، ج8، ص166.
[6] میزان الحکمہ، ج۷، ص.55
[7] وسائل الشیعہ، ج11، ص246۔
[8] میزان الحکمہ، ج۷، ص.55
[9] وسائل الشيعہ، ج1، ص87۔
[10] وسائل الشيعہ، ج1، ص87۔
Add new comment