خلاصہ: مؤمن انسان اپنی راتوں کو بے کار کاموں میں نہیں گذارتا بلکہ اس میں اللہ کو یاد کرتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایک دن امام باقر(علیہ السلام) نے سلیمان ابن خالد سے پوچھا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمھیں نیکی کے دروازوں کا پتا بتلاؤ؟ سلیمان نے عرض کی: میری جان آپ پر قربان ہوجائے بتلائیے۔ اس کے بعد امام(علیہ السلام) نے فرمایا: «الصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ وَ الصَّدَقَةُ تَذْهَبُ بِالْخَطِئَةِ وَ قِيَامُ الرَّجُلِ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ بِذِكْرِ اللَّه؛ روزہ جھنم کے لئے ڈھال ہے اور صدقہ گناہوں کو ختم کردیتا ہے اور آدھی رات میں کسی شخص کا اللہ کی یاد میں قیام کرنا»، اس کے بعد امام(علیہ السلام) نے اس آیت کی تلاوت کی: «تَتَجافى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِع[سورۂ سجده، آیت:۱۶] ان کے پہلو بستر سے الگ رہتے ہیں»[الکافی،ج۲،ص۲۴]۔
نکات:
۱۔ مؤمن انسان اپنی راتوں کو بے کار کاموں میں نہیں گذارتا بلکہ اس میں اللہ کو یاد کرتا ہے۔
۲۔ مؤمن صرف اپنا خیال نہیں کرتا بلکہ دسروں کی بھی فکر میں رہتا ہے اسی لئے وہ انفاق کرتا ہے اور صدقہ دیتا ہے۔
۳۔ ماہ مبارک رمضان وہ مہینہ ہے جس میں انسان یہ تینوں نیکیاں کرتا ہے، روزہ رکھتا ہے، فقیروں کو فطرہ دیتا ہے، اور سحری کے بھانے آدھی رات کو بیدار ہوتا ہے اور اللہ کو یاد کرتا ہے۔
*الكافي، محمد بن يعقوب کلینی، دار الكتب الإسلامية، تهران، ۱۴۰۷ق.
Add new comment