خلاصہ: اس مضمون میں بیان کیا جارہا ہے کہ عقل، دوسری قوتوں پر کیسے حکمرانی کرتی ہے اور ان پر قابو پاتی ہے۔
اگر نفسانی طاقتیں عقل کی فرمانبرداری نہ کریں اور جو حد عقل ان کے لئے مقرر کرتی ہے اس پر راضی نہ ہوں تو عقل ان کو سنبھالنے کے لئے خاص طریقے کار استعمال کرتی ہے، غضب اور شہوت کو ایک دوسرے کے خلاف اکساتی ہے۔ جب غضب سرکشی کرے تو شہوت کو اکسانے کے ذریعے غضب کو کمزور کردیتی ہے اور اگر شہوت طغیان کرے تو غضب کو اکسانے کے ذریعے اسے کمزور کردیتی ہے اور اگر واہمہ حربے کرنے سے باز نہ آئے تو غضب کے حملے سے اسے سنبھالتی ہے اور اگر غضب بھی اس پر غالب نہ آسکے تو عقل خود فاش کرنے کے ذریعے اسے رسوا کردیتی ہے۔ مثلاً اس نے جو منصب، مقام پسندی کے لئے حاصل کیا ہے اسے اپنی دینی ذمہ داری اور لوگوں کی خدمت کا ذریعہ سمجھ لیا ہے، ایسے موقعوں پر کیونکہ انسان اپنے نفس سے واقف ہے "بَلِ الْإِنسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ" [سورہ قیامۃ، آیت ۱۴] تو عقل، واہمہ سے دھوکہ نہیں کھاتی اور حقیقت کو فاش کرنے کے ذریعے اسے رسوا کردیتی ہے۔ اس نگرانی اور سنبھالنے کا انسان کے اندر نتیجہ یہ ہے کہ نفسانی طاقتوں کے درمیان عادلانہ تعلقات قائم ہوجاتے ہیں۔ ہر طاقت اپنے اپنے مقام پر قرار پاتی ہے۔ عقل اپنی حکمرانی اور رہبری کے مقام پر پہنچ جاتی ہے اور شہوت اور غضب اپنے مناسب مقامات پر عقل کی حکمرانی کے ماتحت عمل کرتی ہیں۔ غضب اور شہوت کا حق یہ ہے کہ عقل کے زیرِاختیار رہیں تا کہ بدن کی حفاظت کریں اور انسان اپنے کمال تک پہنچ جائے۔ واضح رہے کہ اس مقام تک پہنچنا، آسان کام نہیں ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ زندگی کی انتہا تک وقوع پذیر نہ ہو۔
حکایت میں ہے کہ حکومت وقت نے سید بن طاووس (علیہ الرحمہ) سے چاہا کہ آپ قضاوت کے منصب کو قبول کریں اور اسلامی ملک کے قاضی القضات بن جائیں۔ سید نے جواب میں فرمایا: میں ساری زندگی ایک تنازعہ کا فیصلہ نہیں کرپایا اور اپنے اندر صلح و سکون قائم نہیں کرسکا تو کیسے ایک قوم کے تنازعات کا فیصلہ کروں اور ان کے درمیان صلح کرواؤں۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ انسان جب تک اپنے اندر عدل قائم نہ کرے تو اپنے وجود سے باہر بھی عدل کو قائم نہیں کرسکتا۔ جس نے اپنی شہوت اور غضب کے گریبان میں ہاتھ ڈالا ہوا ہے وہ حق کو حقدار کے حوالے نہیں کرسکتا۔ اسی لیے اسلام کے سیاسی نظام میں وہی شخص حکومت اور رہبری کرسکتا ہے جو اس مقابلہ میں فتح حاصل کرلے۔
* ماخوذ از: اخلاق الٰہی، آیت اللہ مجتبی تہرانی، ج۱، ص۷۷۔
Add new comment