خلاصہ: حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) نے محاسبہ نفس پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص روزانہ محاسبہ نفس نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے پھر آپؑ نے محاسبہ نفس کرنے کا طریقہ بھی ارشاد فرمایا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہم ایسی دنیا میں زندگی بسر کررہے ہیں جس میں بہت حساب کیا جاتا ہے اور اس میں حساب کے بغیر زندگی بسر نہیں کی جاسکتی۔ جیسے زندگی کے مختلف مادی اور ظاہری حالات کے بارے میں حساب کیا جاتا ہے اسی طرح معنوی اور روحانی امور میں بھی اپنے نفس سے حساب لینا انتہائی ضروری اور اہم ہے۔ محاسبہ نفس، ایسا مفہوم ہے جو بہت گہرا اور دیگر سب دینی مفاہیم پر اثرانداز ہے، مگر لوگ اس سے بہت غافل ہیں۔ محاسبہ نفس ایسے نتائج اور فوائد کا حامل ہے کہ ان فوائد کو دیگر دینی تعلیمات سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات میں محاسبہ نفس پر بہت تاکید کی گئی ہے جس سے اس کی اہمیت بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "لَيس مِنّا مَن لَم يُحاسِبْ نَفْسَهُ في كُلِّ يَومٍ ، فإنْ عَمِلَ خَيرا اسْتَزادَ اللّه َ مِنهُ و حَمِدَ اللّه َ علَيهِ ، و إنْ عَمِلَ شَيئا شَرّا اسْتَغْفَرَ اللّه َ و تابَ إلَيهِ"[1]، "جو شخص روزانہ اپنے نفس کا حساب نہ لے، وہ ہم میں سے نہیں ہے، پس اگر نیکی کرے تو اللہ سے اس کے بڑھنے کی دعا مانگے اور اس پر اللہ کی حمد کرے، اور اگر برائی کرے تو اللہ کی بارگاہ میں استغفار کرے اور توبہ کرے"۔ آپؑ کی یہ حدیث ایسی بصیرت افروز حدیث ہے جس سے کئی قیمتی اور اہم گوہر حاصل ہوتے ہیں، اسی لیے اس حدیث کے مختلف پہلووں پر ہمیں گفتگو کرنا ہے، ان میں سے پہلا مضمون محاسبہ نفس کی تاکید کے بارے میں ہے، اس بارے میں اِسی مضمون میں گفتگو کی جارہی ہے اور دیگر پہلووں پر دوسرے مضمون میں گفتگو کی جائے گی ان شاء اللہ۔
امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی مذکورہ بالا حدیث سے ماخوذ چند اہم نکات اور عملی درس:
۱۔ محاسبہ نفس اتنا اہم کام ہے کہ جو شخص محاسبہ نفس نہیں کرتا وہ اہل بیت (علیہم السلام) کا حقیقی پیروکار نہیں ہے۔
۲۔ محاسبہ نفس کا عمل روزانہ ہونا چاہیے۔
۳۔ محاسبہ نفس کا نتیجہ اپنے کیے ہوئے اچھے اعمال اور برے اعمال کی پہچان ہے۔
۴۔ اچھے عمل کی وجہ سے اللہ تعالی سے یہ دعا مانگی چاہیے کہ اللہ اس نیک عمل کو مزید بڑھائے اور اس کے بڑھنے کی توفیق پروردگار سے طلب کی جائے۔
۵۔ نیک عمل کی وجہ سے اللہ تعالی کی حمد کرنا چاہیے نہ کہ یہ انسان اپنے عمل پر مغرور اور فخر کرنے لگ جائے۔
۶۔ برے عمل کی وجہ سے اللہ تعالی کی بارگاہ میں استغفار اور توبہ کرنا چاہیے کہ آئندہ اس برائی کا ارتکاب نہیں کروں گا۔
۷۔ آپؑ نے جیسے نیک عمل کے سلسلہ میں دو کاموں کا حکم ہے اسی طرح برے عمل کے سلسلہ میں بھی دو کاموں کا حکم دیا ہے۔ نیک عمل: اضافہ کی دعا اور اللہ کی حمد۔ برا عمل: استغفار اور توبہ۔
حساب و کتاب قرآن کریم کی چند آیات کی روشنی میں:
محاسبہ نفس کی ترغیب: "يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَ اتَّقُوا اللّهَ إِنَّ اللّهَ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ"[2]، "اے ایمان والو! اللہ (کی مخالفت سے) ڈرو اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل (قیامت) کیلئے آگے کیا بھیجا ہے اللہ سے ڈرو بےشک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے"۔
ظاہر اور خفیہ کا حساب: "لِلّهِ مَا فِي السَّماوَاتِ وَ مَا فِي الْأرْضِ وَ إِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّه ُ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَ يُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَ اللّه ُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ"[3]، "جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (سب کچھ) خدا کا ہے۔ اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے۔ خواہ تم اس کو ظاہر کرو یا اسے چھپاؤ۔ خدا سب کا تم سے محاسبہ کرے گا اور پھر جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا سزا دے گا۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے"۔
حساب میں تیزی: "ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ"[4]، "پھر وہ اللہ کے پاس جو ان کا حقیقی مالک ہے لوٹائے جاتے ہیں۔ خبردار فیصلہ کرنے کا اختیار اسی کو حاصل ہے اور وہ سب سے زیادہ جلدی حساب لینے والا ہے"۔
محاسبۂ نفس کی تاکید روایات کی روشنی میں:
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: "حاسِبوا أنْفُسَكُم قَبلَ أنْ تُحاسَبوا ، و زِنوها قَبلَ أنْ تُوزَنوا ، و تَجَهَّزوا للعَرْضِ الأكْبَرِ"[5]، "اپنے نفس سے حساب لو اس سے پہلے کہ تم سے حساب لیا جائے اور اپنے (اعمال) کو تولو اس سے پہلے کہ تمہارے (اعمال) کو تولا جائے اور تیار ہوجاؤ بڑے حساب و کتاب (قیامت کے دن) کے لئے"۔
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "...فحاسِبوا أنْفُسَكُم قَبلَ أنْ تُحاسَبوا، فإنَّ أمْكِنَةَ القِيامَةِ خَمْسونَ مَوْقِفا، كُلُّ مَوقِفٍ مَقامُ ألْفِ سَنَةٍ ، ثُمَّ تَلا هذهِ الآيةَ : فِي يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ خَمْسِينَ ألْفَ سَنَةٍ"[6]،[7]، "...لہذا اپنے نفسوں سے حساب لو اس سے پہلے کہ تمہارا حساب لیا جائے، کیونکہ قیامت میں (حساب و کتاب کے) پچاس موقف ہیں، ہر موقف پر ہزار سال کا قیام ہوگا، پھر امام (علیہ السلام) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے"۔
محاسبہ نفس کے فائدے:
رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جناب ابوذر سے فرمایا: "يا أبا ذرٍّ، حاسِبْ نَفْسَكَ قَبلَ أنْ تُحاسَبَ ، فإنَّهُ أهْوَنُ لِحِسابِكَ غَداً"[8]، اے ابوذر، اپنے نفس سے حساب لو اس سے پہلے کہ تم سے حساب لیا جائے کیونکہ یہ کام تمہارے کل (قیامت) کے حساب کے لئے زیادہ آسان ہے۔
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "من حاسب نفسه سعد"[9]، "جس شخص نے اپنے نفس سے حساب لیا وہ خوش نصیب ہوگیا"۔
نیز آپؑ فرماتے ہیں: "من حاسب نفسه ربح"[10]، "جس شخص نے اپنے نفس کا حساب لیا اس نے فائدہ اٹھایا"۔
نیز آپؑ ہی فرماتے ہیں: "ثمرة المحاسبة صلاح النّفس"[11]، "حساب لینے کا نتیجہ، نفس کی اصلاح ہے"۔
نتیجہ: حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی اس نورانی حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ محاسبہ نفس ایسا ضروری اور اہم عمل ہے جو ہر انسان کو کرنا چاہیے، اس کی اہمیت، آپؑ کے اسی جملہ سے واضح ہوجاتی ہے کہ آپؑ فرماتے ہیں کہ جو شخص روزانہ اپنے نفس سے حساب نہ لے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] الاختصاص، 26۔
[2] سورہ حشر، آیت18۔
[3] سورہ بقرہ، آیت 284۔
[4] سورہ انعام، آیت62۔
[5] بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج70، ص73۔
[6] سورہ معارج، آیت4۔
[7] امالی مفید، ص329.
[8] وسائل الشیعہ، علامہ شیخ حر عاملی، ج16، ص98۔
[9] غرر الحكم و درر الكلم، آمدی، ص585۔
[10] نہج البلاغہ، حکمت 208۔
[11] غرر الحكم و درر الكلم، آمدی، ص329۔
Add new comment