خلاصہ: نفس کی چار قوتیں ہیں، ان کو مثال میں بیان کیا جارہا ہے۔
عقل اس شکارچی آدمی جیسی ہے جو گھوڑے پر سوار ہے اور ایک درندے کو اپنے ساتھ لیے ہوئے شکار کا تعاقب کررہا ہے اور چوروں میں سے ایک جاسوس اس شکارچی کا تعاقب کررہا ہے تا کہ اسے چوروں کے حوالے کردے۔ شکارچی کی مثال انسان کی عقل ہے جو کمال حاصل کرنے کے لئے دنیا میں آیا ہے، اس کا گھوڑا اس کی شہوت ہے اور اس کے پاس جو درندہ ہے وہ قوت غضب ہے اور جاسوس وہی قوت واہمہ ہے جو اسے شیطان کی طرف کھینچتی ہے۔
گھوڑا اور درندہ تب فائدہ مند ہیں اور شکار میں شکارچی کے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں کہ تربیت یافتہ ہوں۔ غیرتعلیم یافتہ درندہ جو کچھ پکڑ لے اسے خود کھا جائے گا اور اس کی محنت سے شکارچی کو فائدہ حاصل نہیں ہوگا اور بعض اوقات ہوسکتا ہے کہ لوگوں کے مال کو کھا جانے سے اپنے مالک کے نقصان اور شرمساری کا باعث بھی بنے یا کسی فرصت میں مالک کی غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے بھی کاٹ دے۔ سرکش گھوڑا شکار کے پیچھے دوڑنے کے بجائے ہر نشیب و فراز کی طرف بے مقصد جاتا ہے یہاں تک کہ اپنی سواری کو کسی گڑھے میں پھینک دیتا ہے اور خود بے لگام ہو کر جس طرف چاہے دوڑتا ہے۔ جاسوس کی بات سننے اور اس کے پیچھے چل پڑنے میں بھی سب کے لئے سوائے ہلاکت کے کوئی نتیجہ نہیں ہے۔ لہذا نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ سب عقل کی فرمانبرداری کریں تا کہ سب مل کر واحد طاقت کی طرح مقصد کو تلاش کریں اور کمال کے راستے کو طے کریں۔
* ماخوذ از: اخلاق الٰہی، آیت اللہ مجتبی تہرانی، ج۱، ص۷۵۔
Add new comment