خلاصہ: تاریخی واقعات وقت کے گزرنے سے بھول جاتے ہیں، مگر واقعہ کربلا ایسا واقعہ ہے جو دن بدن زیادہ تازہ ہوتا جارہا ہے۔
جب تاریخ میں نظر دوڑائی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے جس کی یاد صدیوں کے گزرنے کے بعد بھی زندہ ہو اور ایسا محسوس ہو کہ ابھی وقوع پذیر ہوا ہے اور لوگ اس سے متاثر ہوں۔ ایسا واقعہ کسی مذہب اور کسی قوم اور کسی ملک اور کسی معاشرے میں نہیں ملتا۔ البتہ ایسی تحریکیں ہیں جو ہزاروں سالوں کے بعد ان کی کچھ یاد باقی ہے اور ان کی یاد میں کچھ کام کیے جاتے ہیں، لیکن اس کی معمولی سی ہی یاد باقی ہوتی ہے جس کا لوگوں کی زندگی میں کوئی خاص اثر بھی نہیں ہوتا۔ مگر حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کا واقعہ ایسا واقعہ ہے جو ہر سال زیادہ تازہ ہوجاتا ہے اور معاشرے پر اس کا اثر بڑھ جاتا ہے، لہذا یہ واقعہ جو اتنے صفات اور مختلف پہلوؤں کا حامل ہے، اس کے بارے میں بہت ساری بحثیں بیان ہونی چاہئیں۔
ہمیں چاہیے کہ واقعہ عاشورا کا زیادہ سے زیادہ تجزیہ کرتے ہوئے کوشش کریں کہ اس واقعہ کو مختلف لحاظ سے اپنی زندگی میں اپنائیں، کیونکہ تاریخی واقعات اگرچہ پہلے کی طرح دہرائے نہیں جاتے، لیکن بعد والے واقعات کے سابقہ واقعات سے کچھ مشترکہ پہلو بھی ہوتے ہیں جن سے درس حاصل کیا جاسکتا ہے۔
سورہ یوسف کی آیت ۱۱۱ میں ارشاد الٰہی ہے: "لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ"، "یقیناً ان لوگوں کے (عروج و زوال کے) قصہ میں صاحبانِ عقل کے لئے بڑی عبرت و نصیحت ہے"۔
انبیاء (علیہم السلام) اور سابقہ اقوام کے واقعات کو بیان کرکے یہ ارشاد فرمایا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے کاموں میں جو اچھے پہلو پائے جاتے ہیں ان کو اپناؤ اور نیز ان کے غلط کاموں سے پرہیز کرو۔
واقعہ عاشورا کی عظمت اس قدر زیادہ ہے کہ اس کے لئے اس کام کی ضرورت ہے کہ اس کے بارے میں بہت غوروخوض کیا جائے، کیونکہ ۱۴۰۰ سال گزرنے کے بعد بھی اس واقعہ کی یاد بہترین انداز میں زندہ ہے۔
* ماخوذ از: در پرتو آذرخش، ص۴۵، آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی، قم، موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی رحمہ اللہ، ۱۳۸۱۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی۔
Add new comment