خلاصہ: حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے معاویہ کے مقابلہ میں قیام نہیں کیا، لیکن دینی اور سیاسی جدوجہد میں مصروف رہے، جن میں سے ایک مقام، حج کے موقع پر منا میں خطاب ہے، جس میں آپؑ نے اہل بیت (علیہم السلام) کے فضائل کا لوگوں سے اقرار لیا اور اپنے بیانات کے لئے حاضرین کو تاکید کی کہ غیرحاضر لوگوں تک پہنچا دیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے اگرچہ معاویہ کے زمانہ میں مسلح قیام نہیں کیا، لیکن ہمیشہ حق کی تبلیغ و فروغ اور دینی و قرآنی اصول کی مضبوطی پر تاکید کیا کرتے تھے۔
عترت اور ان کے سرفہرست حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) وحی کے ترجمان اور قرآن کے ہم پلہ ہیں جو مل کر لوگوں کو گمراہی سے بچاتے ہیں۔ قرآن کریم میں ان حضرات سے مودت کرنے کا حکم، اجر رسالت کے طور پر بتایا گیا ہے: "قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ[1]"، "آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو"۔ یہ مودت اور محبت صرف جذباتی نہیں، بلکہ ایسی محبت ہے جو انسان کو اللہ کی طرف ہدایت کرے۔ اس بنیاد پر ائمہ طاہرین (علیہم السلام) اللہ اور قرآن کے اس حکم کی اہمیت کو بیان کرتے تھے۔
سلیم ابن قیس لکھتے ہیں کہ معاویہ کی موت سے ایک سال پہلے، حضرت امام حسین (علیہ السلام)، عبداللہ ابن عباس اور عبداللہ ابن جعفر کے ساتھ حج کے لئے مکہ تشریف لے گئے۔ اس سفر میں آپؑ نے بنی ہاشم کے مردوں، عورتوں اور ان کے خادموں کو اور انصار کے وہ افراد جو آپؑ اور آپؑ کے خاندان سے واقف تھے، اکٹھا کیا، پھر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان اصحاب کو جو حق و تقوا سے مشہور تھے اور حج پر آئے ہوئے تھے، بلوایا اور ان سب کو منا میں اکٹھا کیا۔ سات سو سے زیادہ افراد وہاں پر اکٹھا ہوگئے جو اکثر تابعین میں سے تھے اور تقریباً دو سو افراد اصحاب میں سے تھے۔ آپؑ کھڑے ہوئے اور ان کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا۔ اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:
"امَّا بَعْدُ فَانَّ هذَا الطَّاغِيَةَ قَدْ فَعَلَ بِنا وَ بِشِيعَتِنا ما قَدْ رَأَيْتُمْ وَ عَلِمْتُمْ وَ شَهِدْتُمْ وَ إِنّي أُريدُ أَنْ أَسْأَلَكُمْ عَنْ شَىْءٍ، فَانْ صَدَقْتُ فَصَدِّقُونِي وَ إِنْ كَذِبْتُ فَكَذِّبُونِي، وَ أَسْأَلُكُمْ بِحَقِ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَ حَقِّ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه و آله وَ قِرابَتي مِنْ نَبِيِّكُمْ لَمَّا سَيَّرْتُمْ مَقامي هذا وَ وَصَفْتُمْ مَقالَتِي وَ دَعَوْتُمْ أَجْمَعينَ فِي أَمْصارِكُمْ مِنْ قَبائِلِكُمْ مَنْ آمَنْتُمْ مِنَ النَّاسِ"۔[2]
اِس باغی شخص (معاویہ) نے ہمارے اور ہمارے شیعوں کے ساتھ (جو ظلم وستم) روا رکھا ہواہے، وہ آپ دیکھ رہے ہیں، آپ کے علم میں ہے اور آپ اس کے گواہ ہیں۔ میں اب آپ سے کچھ امور کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں، اگر میں سچ بولوں تو میری تصدیق کیجیے گا اور اگر جھوٹ بولوں تو میری بات جھٹلا دیجیے گا اور آپ کو قسم دیتا ہوں اللہ کے حق کی جو اس کا (حق) تم پر ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے حق کی اور جو میری آپ کے پیغمبر سے قرابتداری ہے کہ آج کے واقعہ کو لوگوں تک پہنچائیے اور میری باتیں ان کو سنائیے اور اپنی بستیوں کے قبیلوں میں سے اپنے قابلِ اعتماد افراد کو دعوت دیجیے"۔
دوسری روایت میں نقل ہوا ہے کہ اس جملہ " اگر جھوٹ بولوں تو میری بات جھٹلا دیجیے گا" کے بعد آپؑ نے فرمایا:
"اسْمَعُوا مَقالَتِي وَاكْتُبُوا قَوْلي ثُمَّ ارْجِعُوا الى امْصارِكُمْ وَ قَبائِلِكُمْ فَمَنْ آمَنْتُمْ مِنَ النَّاسِ وَ وَثَقْتُمْ بِهِ فَادْعُوهُمْ الى ما تَعْلَمُونَ مِنْ حَقِّنا فَإِنّي أَتَخَوَّفُ انْ يَدْرُسَ هذَا الْأَمْرُ وَ يَذْهَبَ الْحَقُّ وَ يَغْلِبَ، وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْكافِرُونَ "، "میری باتوں کو سنیے اور لکھ لیجیے، پھر جب اپنے شہروں کو پلٹیے اور اپنے قبیلوں میں واپس جائیے، تو لوگوں میں سے جن پر آپ کو اطمینان اور اعتماد ہے ان افراد کو ہمارے حق کے بارے میں جو کچھ آپ جانتے ہیں اُس کی دعوت دیجیے کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ کہیں امر دین فرسودہ ہو جائے اور حق ختم اور مغلوب ہوجائے حالانکہ اللہ اپنے نور کو مکمل کردیتا ہے چاہے کافروں کے لیے (یہ) کتنا ہی ناگوار ہو "۔
پھر حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو اللہ کی قسم دیتے ہوئے کچھ وہ فضائل جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت امیرالمومنین، حضرت فاطمہ زہرا، امام حسن مجتبی اور امام حسین (علیہم السلام) اور دیگر چند ہستیوں کے بارے میں فرمائے تھے، بیان کیے اور ان لوگوں نے بھی آپؑ کے بیانات کے ہر فقرہ کے بعد قسم کھاتے ہوئے آپؑ کی تصدیق کی۔
نتیجہ: امام حسین (علیہ السلام) کے لئے معاویہ کے سامنے قیام کرنے کے لئے رکاوٹیں پائی جاتی تھیں، لیکن آپؑ نے دینی اور سیاسی جدوجہد جاری رکھی، اور لوگوں کو اپنے بیانات سے ہدایت کرتے رہے، جن میں سے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اور اہل بیت (علیہم السلام) کے فضائل بیان کرتے ہوئے، لوگوں سے اقرار لینا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سورہ شوری، آیت 23۔
[2] كتاب سُليم بن قيس : ج 2 ص 788 ح 26 ، بحار الأنوار : ج 33 ص 181 ح 456۔
Add new comment