امام حسین (علیہ السلام) کا عام راستوں سے سفر

Mon, 09/02/2019 - 11:45

خلاصہ: حضرت امام حسین (علیہ السلام) کو جب مشورہ دیا گیا کہ مکہ جانے کے لئے غیرمعمول راستہ اختیار کریں تو آپؑ نے جو ارشاد فرمایا، مختصر وضاحت کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے۔

امام حسین (علیہ السلام) کا عام راستوں سے سفر

جب ولید نے حضرت امام حسین (علیہ السلام) اور عبداللہ ابن زبیر کو بیعت کے لئے بلایا تو امام حسین (علیہ السلام) نے شجاعانہ انداز میں جا کر اس سے گفتگو کی اور بیعت نہ کرنے کے بارے میں اپنا موقف کھلم کھلا بیان فرما دیا۔ مگر عبداللہ ابن زبیر گفتگو کے لئے نہ آیا اور خفیہ طور پر رات کے وقت مدینہ سے نکلا اور غیر معمول راستوں سے مکہ کی طرف روانہ ہوا۔

لیکن حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے عام راستے کو اختیار کیا جو مسافروں اور قافلوں کے لئے تھا۔ آپؑ کے ایک صحابی نے آپؑ سے عرض کیا کہ بہتر ہے کہ آپؑ بھی عبداللہ ابن زبیر کی طرح کسی غیرمعمول اور پہاڑی راستے کو اختیار کریں تا کہ اگر یزید کے کارندوں کی طرف سے کوئی افراد آپؑ کا تعاقب کررہے ہوں اور آپؑ کو نقصان پہنچانا چاہیں تو وہ اپنے مقصد تک نہ پہنچ سکیں۔
امام (علیہ السلام) نے اس بات کے جواب میں فرمایا: "لا، والله لا افارقه حتى یقضى الله ما هو قاض"، "نہیں، اللہ کی قسم! اس (عام راستے) کو نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ اللہ اپنے ارادے کو وقوع پذیر کردے"۔
آپؑ کے اس جواب سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ آپؑ ڈر کی وجہ سے اور مدینہ سے فرار کرنے کے لئے نہیں نکلے ورنہ جیسے آپؑ کو مشورہ دیا گیا اور ابن زبیر کی طرح پہاڑی راستے سے جاسکتے تھے، جبکہ آپؑ نے اُس راستے کو اختیار نہیں کیا، بلکہ ایسے راستے کو اختیار کیا جو منظرعام پر تھا اور آپؑ چاہتے تھے کہ اللہ کے اس عظیم حکم کو جو بنی امیہ کے کفر سے جہاد کرنا تھا اسے جامہ عمل پہنانے کے لئے آزادی سے اور انتہائی اطمینان سے اپنا راستہ اختیار کریں۔

[ماخوذ از: سخنان حسین بن علی (علیہماالسلام) از مدینہ تا کربلا، تصنیف: آیت اللہ محمد صادق نجمی]

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 58