خلاصہ: زیارت اربعین محض زیارت نہیں ہے بلکہ امام عالی مقام کی نصرت کا ایک حسین انداز بھی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت اباعبداللہ الحسین (علیہ السلام) نے اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہِ قدسی میں اپنی قربانی کتنی خالصانہ اور مکمل طور پر پیش کی کہ صدیوں بعد دنیا کی مشرق و مغرب میں محبتِ حسین (علیہ السلام) کی ایسی لہر دوڑی کہ کروڑوں کی تعداد حسرت بھرے اور غمزدہ دلوں کے ساتھ باپ کے حرم سے بیٹے کے حرم تک چل کر جاتے ہیں تاکہ ثابت کریں کہ اگرچہ ہم نہ واقعہ سقیفہ میں تھے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کی نصرت کرتے ہوئے درِبتول (سلام اللہ علیہا) کو نہ جلنے دیتے اور نہ ہی واقعہ کربلا میں تھے کہ امام حسین (علیہ السلام) کی نصرت کرتے ہوئے خیام کو نہ جلنے دیتے، تو آج ہم اپنی سب نفسانی خواہشات کو توڑ کر اور تمام مذموم مادی آرزؤں کو چھوڑ کر، "ھل من ناصر ینصرنی" کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کی نصرت کے لئے آپؑ کے بابا حسین (علیہ السلام) کے روضہ مبارک پر یہ خواہش اور آرزو لیے ہوئے شرفیاب ہوئے ہیں کہ مولاؑ ہماری زیارت قبول فرمائیں اور ہمیں بھی اپنے ناصر و مددگاروں میں شامل کرلیں، اگرچہ ہم دیر سے نصرت کے لئے آئے مگر حُر کی طرح آ تو گئے۔
مولا ہم آپؑ کی محبت میں جو اتنے دور دراز فاصلوں کو طے کرتے ہوئے آپؑ کے روضہ مبارک پر آپہنچے ہیں، ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم آپؑ کے مشکل ترین حکم پر بھی عمل کرسکتے ہیں حتی اگر ہمیں اللہ کی رضا کے لئے سَر دینا پڑے، تو اللہ کی بارگاہ میں فضیلت کے وقت پر حاضر ہو کر نماز ادا کرنا بھی آپؑ معصوم ہستیوں کا حکم ہے تو اس کے بھی ہم آئندہ پابند ہوجائیں گے، کیونکہ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ محبوب کے ہر حکم پر عمل کیا جائے، اور جیسے ہم اپنی پسندیدہ چیزوں کو اپنے وطن میں آپؑ کی محبت میں چھوڑ کر آگئے، اسی طرح ہم آپؑ کی محبت میں گناہوں کو بھی چھوڑ دیں گے، کیونکہ جو چیز محبوب کو پسند نہ ہو، محب کو بھی پسند نہیں ہونی چاہیے، یہ محبت کا اصول ہے۔ جیسے ہم نے اتنے سفر میں خیال رکھا کہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے آپؑ اہل بیت (علیہم السلام) کا دل دکھ جائے اور ہماری زیارت قبول نہ ہو تو ہم نے تجربہ کرکے دیکھ لیا کہ ہم اگر چاہیں تو پورے سال ہر طرح کے گناہ سے بچ کر زندگی گزار سکتے ہیں تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا کوئی گناہ اگلے سال کے اربعین (چہلم) میں آنے میں رکاوٹ بن جائے اور اطاعت کی لذت جو اِس سفر میں نصیب ہوئی، اگلے سال ہم اس سے محروم نہ ہوجائیں۔
Add new comment