تین اماموں کی خاموشی، صلح اور قیام تاریخ کے آئینہ میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: دشمن نے لوگوں کے عقائد امامت کو بدلنے کے لئے کوشش کی ہے کہ ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کی سیرت کا غلط طریقہ سے موازنہ کرتے ہوئے، لوگوں کو اس شک و شبہ میں ڈالے کہ ائمہؑ کے درمیان فرق ہے، جبکہ ہرگز ایسا نہیں، کیونکہ وقت کے سیاسی اور معاشرتی حالات کے مطابق یہ حضرات دین کی حفاظت کرتے تھے، مزید تفصیلات کے لئے مندرجہ ذیل مضمون میں تحریر کی گئی ہیں۔

تین اماموں کی خاموشی، صلح اور قیام تاریخ کے آئینہ میں

اگر مسلمان لوگ اہل بیت (علیہم السلام) کے حجت الہی ہونے کے معتقد ہوں اور ان کے ہر کام کو اللہ کے حکم کے عین مطابق ہونے کے معتقد ہوں تو ان ہستیوں کے ہر طریقہ کار کو چاہے صلح ہو یا جنگ، تسلیم کرتے ہوئے بالکل صحیح سمجھیں گے۔ واضح ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) سب واحد نور، معصوم اور ہر طرح کے گناہ اور خطا سے پاک و پاکیزہ ہیں اور ان کا مقصد صرف ایک ہی چیز تھی اور ہے جو دین اسلام کی عزت، فروغ اور حفاظت ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "لا یزال الاسلام عزیزا الی اثنی عشر خلیفة" [1]، "اسلام بارہ خلیفوں تک ہمیشہ باعزت رہے گا"۔ لہذا ائمہ طاہرین (علیہم السلام) اپنے علم اور عصمت کی بنیاد پر اسلام کے تحفظ اور کلمہ حق کے فروغ کے لئے ہمیشہ فائدہ مند ترین اور بہترین راستہ کو اختیار کرتے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ہر امام کے اقدامات، دوسرے امام کے اقدامات کی تکمیل اور تسلسل ہوتا ہے اور وہ اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے عین مطابق عمل کرتے ہیں۔ جیسا کہ جابر نے حضرت امام حسین (علیہ السلام) سے عرض کیا کہ کیا آپؑ بھی حضرت امام حسن (علیہ السلام) کی طرح صلح نہیں کرسکتے؟ آپؑ نے ارشاد فرمایا: "ان اخی فعل بامر من الله ورسوله وانا افعل بامر من الله ورسوله[2]"، "یقیناً میرے بھائی نے اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم پر عمل کیا اور میں (بھی) اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم پر عمل کرتا ہوں"۔ جیسے ان دو امام بھائیوں کے طریقہ کار میں ظاہر میں فرق محسوس ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں دونوں امام ایک ہی مقصد کا تعاقب کررہے تھے۔ ایسا نہیں کہ اہل بیت (علیہم السلام) میں سے کسی معصوم کے کام کو دوسرے معصوم کے کام سے لاتعلق یا مخالف سمجھا جائے۔ حضرت امام حسنؑ کی صلح تاریخ کی پہلی صلح نہیں ہے جو عصمت کے گھرانہ نے اللہ کے دشمن سے کی ہو بلکہ اللہ کے برگزیدہ اور منتخب ہستیوں نے جب دشمن سے جنگ کرنا مناسب سمجھا تو جنگ کی اور جب صلح اور خاموشی کو مصلحت کے مطابق دیکھا تو یہی راستہ اختیار کیا۔ تاریخ اپنے متعدد صفحات پر اس طرح کی خاموشی، صلح اور جنگوں کی گواہی دے رہی ہے۔ حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے جو قیام کیا، اس قیام سے پہلے معاویہ کے دور میں اور امام حسنؑ کی شہادت کے بعد، حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے خاموشی اختیار کی اور آپؑ حضرت امام حسن (علیہ السلام) کے زمانے میں اور آنحضرتؑ کے بعد بھی صلح کے اصول پر بالکل عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ کیونکہ آپؑ نے اور حضرت امام حسن (علیہ السلام) نے معاویہ کے دور میں رکاوٹوں کی وجہ سے قیام کرنا مناسب نہ سمجھا، جیسا کہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد قیام اور جنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا، تو حضرت امام حسنؑ نے اپنے زمانہ میں صلح کی اور حضرت علی ابن ابی طالبؑ نے اپنے دور میں ۲۵ سال خاموشی اور خانہ نشینی اختیار کی، ذرا مزید اس سے پہلے کی ورق گردانی کی جائے تو تاریخ کے ان صفحات سے سامنا ہوتا ہے جن میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکہ کے مشرکوں سے حدیبیہ میں صلح کا واقعہ درج ہے، جبکہ یہ مشرکین، اسلام کے سب سے زیادہ سخت دشمن تھے۔ لیکن یہ خاموشیاں اور صلحیں وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کرنا پڑیں جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ بدر، احد اور خندق، مشرکوں سے ہی لڑی ہے، اور نیز ان کے علاوہ دوسرے دشمنوں سے بھی جنگیں کی ہیں۔ حضرت علیؑ نے اگرچہ پہلے، دوسرے اور تیسرے خلیفہ کے زمانے میں رکاوٹوں کی وجہ سے قیام نہ کیا اور خاموشی اختیار کی، لیکن جب قیام کے اسباب فراہم ہوئے تو اپنی ظاہری خلافت[3] کے دور میں آپؑ نے تین جنگیں کیں، اور اپنی حیات طیبہ کے آخری حصہ میں بھی معاویہ سے جنگ کرنے کی کوشش کرتے رہے، مگر جنگ کے اسباب فراہم نہ ہوپائے، اسی طرح حضرت امام حسن (علیہ السلام) کی بھی تمام تر کوشش یہی تھی کہ معاویہ سے جنگ کریں، لیکن اسباب کے فراہم نہ ہونے کی وجہ سے جنگ نہ کرسکے، جیسا کہ آپؑ صلح کی وجہ، انصار و مددگار کا نہ ہونا بیان کرتے ہیں، جہاں آپؑ فرماتے ہیں: "والله ما سلمت الامر الیه الا انی لم اجد انصارا ولو وجدت انصاراً لقاتلته لیلی ونهاری حتی یحکم الله بینی وبینه"[4]، "اللہ کی قسم! میں نے حکومت معاویہ کے سپرد نہیں کی مگر اس لیے کہ میں نے مددگار نہیں پائے اور اگر مددگاروں کو پالیتا تو معاویہ سے ضرور اپنے دن رات میں جنگ کرتا یہاں تک کہ اللہ میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کردیتا"۔ معاویہ کے مرنے کے بعد یزید کے زمانہ میں جب حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے جنگ کے لئے حالات کو مناسب دیکھا تو قیام کرلیا۔ لیکن معاویہ کے زمانے میں امام حسن اور امام حسین (علیہماالسلام) نے قیام کیوں نہیں کیا؟ اس بحث کی جانچ پڑتال نہج البلاغہ کی روشنی میں اور تاریخ کے تناظر میں کرتے ہیں۔
حضرت امیرالمومنین علی ابن بی طالب (علیہ السلام) نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں: "خدا کی قسم! معاویہ مجھ سے زیادہ چالاک اور ہوشیار نہیں۔ مگر فرق یہ ہے کہ وہ غداریوں سے چوکتا نہیں اور بدکرداریوں سے باز نہیں آتا۔ اگر مجھے عیاری و غداری سے نفرت نہ ہوتی تو میں سب لوگوں سے زائد ہوشیار اور زیرک ہوتا۔ لیکن ہر غداری گناہ اور ہر گناہ حکم الہی کی نافرمانی ہے۔ چنانچہ قیامت کے دن ہر غدار کے ہاتھوں میں ایک جھنڈا ہوگا جس سے وہ پہچانا جائے گا۔ خدا کی قسم! مجھے ہتھکنڈوں سے غفلت میں نہیں ڈالا جاسکتا اور نہ سختیوں سے دبایا جاسکتا ہے"۔[5]
آنحضرتؑ کے ان بیانات کی علامہ مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ تشریح کرتے ہوئے حاشیہ نہج البلاغہ میں تحریر فرماتے ہیں: وہ افراد جو مذہب و اخلاق سے بیگانہ شرعی قید و بند سے آزاد اور جزاوسزا کے تصور سے ناآشنا ہوتے ہیں ان کے لئے مطلب برآری کے لئے حیل و ذرائع کی کمی نہیں ہوتی وہ ہر منزل پر کامیابی و کامرانی کی تدبیریں نکال لیتے ہیں۔ لیکن جہاں انسانی و اسلامی تقاضے اور اخلاقی و شرعی حدیں روک بن کر کھڑی ہوجاتی ہیں وہاں حیلہ و تدبیر کا میدان تنگ اور جولانگاہ عمل کی وسعت محدود ہوجاتی ہے۔ چنانچہ معاویہ کا نفوذ و تسلط انہی تدابیر و حیل کا نتیجہ تھا کہ جن پر عمل پیرا ہونے میں اُسے کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ نہ حلال و حرام کا سوال اُس کے لئے سدراہ ہوتا تھا اور نہ پاداش آخرت کا خوف اُسے ان مطلق العنانیوں اور بیباکیوں سے روکتا تھا… چنانچہ اُس نے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے غلط بیانی و افتراپردازی کے سہارے ڈھونڈے طرح طرح کے مکر و فریب کے حربے استعمال کئے اور جب یہ دیکھا کہ امیرالمومنینؑ کو جنگ میں الجھائے بغیر کامیابی نہیں ہوسکتی تو طلحہ و زبیر کو آپ کے خلاف ابھار کر کھڑا کردیا اور جب اس صورت سے بھی کامیابی نہ ہوئی تو شامیوں کو بھڑکا کر جنگ صفین کا فتنہ برپا کردیا اور پھر حضرت عمار کی شہادت سے جب اس کا ظلم و عدوان بے نقاب ہونے لگا تو عوام فریبی کے لئے کبھی یہ کہہ دیا کہ عمار کے قاتل علیؑ ہیں کیونکہ وہی انہیں ہمراہ لانے والے ہیں اور کبھی حدیث پیغمبرؐ میں لفظ فئۃ باغیۃ کی یہ تاویل کی کہ اس کے معنی باغی گروہ کے نہیں بلکہ اس کے معنی حلب کرنے والی جماعت کے ہیں۔ یعنی عمار اس گروہ کے ہاتھ سے قتل ہوں گے جو خون عثمان کے قصاص کا طالب ہوگا۔ حالانکہ اس حدیث کا دوسرا ٹکڑا یدعوھم الی الجنۃ و یدعونھم الی النار (عمار اُن کو بہشت کی دعوت دیں گے اور وہ انہیں جہنم کی طرف بلائیں گے) اس تاویل کی کوئی گنجائش پیدا نہیں کرتا۔ جب ایسے اوچھے ہتھیاروں سے بھی فتح و کامرانی کے آثار نظر نہ آئے تو قرآن کو نیزوں پر بلند کرنے کا پرفریب حربہ استعمال کیا۔ حالانکہ اس کی نظروں میں نہ قرآن کا کوئی وزن اور نہ اُس کے فیصلہ کی کوئی اہمیت تھی۔ اگر اسے قرآن کا فیصلہ ہی مطلوب ہوتا تو یہ مطالبہ جنگ کے چھڑنے سے پہلے کرتا اور پھر جب اس پر یہ حقیقت کھل گئی کہ عمرو ابن عاص نے ابوموسی کو فریب دے کر اُس کے حق میں فیصلہ کیا ہے اور اس کے فیصلہ کو قرآن سے دور کا بھی لگاؤ نہیں ہے تو وہ اس پرفریب تحکیم کے فیصلہ پر رضامند نہ ہوتا اور عمرو ابن عاص کو اس فریب کاری کی سزا دیتا یا کم از کم تنبیہ و سرزنش کرتا۔ مگر یہاں تو اس کے کارناموں پر اُس کی تحسین و آفرین کی جاتی ہے اور اس کارکردگی کے صلہ میں اسے مصر کا گورنر بنادیا جاتا ہے۔
اس کے برعکس امیرالمومنینؑ کی سیرت شریعت و اخلاق کے اعلیٰ معیار کا نمونہ تھی۔ وہ ناموافق حالات میں بھی حق و صداقت کے مقتضیات کو نظر میں رکھتے تھے اور اپنی پاکیزہ زندگی کو حیلہ و مکر کی آلودگیوں سے آلودہ نہ ہونے دیتے تھے وہ چاہتے تو حیلوں کا توڑ حیلوں سے کرسکتے تھے اور اس کی رکاکت آمیز حرکتوں کا جواب ویسی ہی حرکتوں سے دیا جاسکتا تھا جیسے اس نے فرات پر پہرا بٹھا کر پانی روک دیا تھا تو اُس کو اس امر کے جواز میں پیش کیا جاسکتا تھا کہ جب عراقیوں نے فرات پر قبضہ کرلیا تو ان پر بھی پانی بند کردیا جاتا اور اس ذریعہ سے ان کی قوت حرب و ضرب کو مضمحل کرکے انہیں مغلوب بنالیا جاتا۔ مگر امیرالمومنینؑ ایسے ننگ انسانیت اقدام سے کہ جس کی کوئی آئین و اخلاق اجازت نہیں دیتا کبھی اپنے دامن کو آلودہ نہ ہونے دیتے تھے۔ اگرچہ دنیاوالے ایسے حربوں کو دشمن کے مقابلہ میں جائز سمجھتے ہیں اور اپنی کامرانی کے لئے ظاہر و باطن کی دورنگی کی سیاست و حسن تدبیر سے تعبیر کرتے ہیں۔ مگر امیرالمومنینؑ کسی موقعہ پرفریب کاری و دورنگی سے اپنے اقتدار کے استحکام کا تصور بھی نہ کرتے تھے چنانچہ جب لوگوں نے آپ کو یہ مشورے دیئے کہ عثمانی دور کے عمال کو ان کے عہدوں پر برقرار رہنے دیا جائے اور طلحہ و زبیر کو کوفہ و بصرہ کی امارت دے کر ہمنوا بنالیا جائے اور معاویہ کو شام کا اقتدار سونپ کر اُس کے دنیوی تدبر سے فائدہ اٹھایا جائے تو آپ نے دنیوی مصلحتوں پر شرعی تقاضوں کو ترجیح دیتے ہوئے اُسے ماننے سے انکار کردیا۔ اور معاویہ کے متعلق صاف صاف لفظوں میں فرمایا:
ان اقررت معاویۃ علی ما فی یدہ کنت متخذ المضلین عضدا (استیعاب، ج1، ص259) اگر میں معاویہ کو اس کے مقبوضہ علاقہ پر برقرار رہنے دوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ میں گمراہ کرنے والوں کو اپنا قوت بازو بنا رہا ہوں۔
ظاہر میں یہ لوگ صرف ظاہری کامیابی دیکھتے ہیں اور یہ دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ یہ کامیابی کن ذرائع سے حاصل ہوئی ہے۔ وہ شاطرانہ چالوں اور عیارانہ گھاتوں سے جسے کامیاب و کامران ہوتے دیکھتے ہیں اُس کے ساتھ ہوجاتے ہیں اور اُسے مدبر و بافہم اور سیاستدان اور بیدار مغز اور خدا جانے کیا کیا سمجھنے لگتے ہیں اور جو الٰہی تعلیمات اور اسلامی ہدایات کی پابندی کی وجہ سے چالوں اور ہتھکنڈوں کو کام میں نہ لائے اور غلط طریق کار سے حاصل کی ہوئی کامیابی پر محرومی کو ترجیح دے وہ اُن کی نظروں میں سیاست سے ناآشنا اور سوجھ بوجھ کے لحاظ سے کمزور سمجھا جاتا ہے۔ انہیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کہ وہ یہ سوچیں کہ ایک پابند اصول و شرع کی راہ میں کتنی مشکلیں اور رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں کہ جو منزل و کامرانی کے قریب پہنچنے کے باوجود اُسے قدم آگے بڑھانے سے روک دیتی ہے۔
نتیجہ: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام)، امام حسن (علیہ السلام) اور امام حسین (علیہ السلام) تینوں اماموں نے اسلام کی بقا کے لئے اپنے دور امامت کے کسی نہ کسی حصہ میں خاموشی اختیار کی ہے، چاہے حالات کے بدلنے کے بعد اہل باطل سے جنگ کی ہو، لیکن خاموشی اختیار کرنا تینوں ائمہ اطہار (علیہم السلام) کی زندگی میں روز روشن کی طرح عیاں ہے، جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ان کی خاموشی مستقبل کے قیام کا پیش خیمہ اور مقدمہ تھی اور ان کی خاموشی نے اسی طرح اسلام کو محفوظ رکھا جیسے ان کے قیام نے اسلام کو تحفظ دیا۔ اب یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ کیوں فرمایا تھا کہ "الحسن و الحسین امامان قاما أو قعدا[6]"، "حسن اور حسین امام ہیں، قیام کریں یا بیٹھیں" یعنی چاہے جنگ کریں یا صلح کریں، دونوں امام ہیں۔ بنابریں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی ۲۵ سال خاموشی، حضرت امام حسن (علیہ السلام) کی ۱۰ سال صلح اور امام حسین (علیہ السلام) کی ۱۰ سال خاموشی، وقت کے سیاسی اور معاشرتی حالات کی وجہ سے تھی۔ دوسرے لفظوں میں ائمہ طاہرین (علیہم السلام) ظالموں اور غاصبوں کے ظلم و ستم کو دیکھ کر خاموشی اور صلح کرنا نہیں چاہتے تھے، لیکن مصلحت کے پیش نظر یہ راستے اختیار کرنا پڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] اهل البیت فی القرآن والسنة ص 74 (مصنف: محمد محمدی ری شهری)، بنقل از صحیح مسلم و مسند احمد۔
[2] بر امام حسن علیه السلام و امام حسین علیه السلام چه گذشت، تصنیف: سید محمد موسوی کاشانی، ص 84۔
[3] ائمہ طاہرینؑ اپنے دور امامت میں باطنی خلافت کے حامل ہیں، چاہے ظاہری طور پر لوگ ان کو مسند و منبر پر نہ بیٹھنے دیں اور ظاہری طریقہ سے لوگوں پر خلافت نہ کرنے دیں، لیکن وہ باطنی طور پر اور حقیقت میں خلیفہ ہیں۔
[4] الاحتجاج، ج 2، ص 71۔
[5] نہج البلاغہ اردو ترجمہ، علامہ مفتی جعفر حسین، ص493۔
[6] دانشنامہ امام حسن علیہ السلام، ج1، ص694۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 72