خلاصہ: اگر گناہ دیکھ کر اس پر اعتراض نہ کیا جائے تو معاشرے میں گناہ اور ظلم کی قباحت ٹوٹ جاتی ہے، لہذا اعتراض کرنا چاہیے تاکہ قباحت نہ ٹوٹے اور لوگ گناہ کرنے سے نفرت اور پرہیز کرین
اگر پہلے اور دوسرے خلیفوں کے زمانے میں کہا جاتا کہ فلان عمل اللہ کے حکم اور رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی سنّت کے خلاف ہے تو لوگ اس کام کے ارتکاب سے پرہیز کرتے تھے، لیکن تیسرے خلیفہ کے زمانے میں لوگوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ بیت المال لوٹ رہے ہیں اور کوئی انہیں اعتراض بھی نہیں کرتا۔ ان کاموں کو دیکھنے سے ان غلطیوں کی قباحت رفتہ رفتہ ٹوٹ گئی اور لوگوں نے سمجھا کہ شاید ایسے کاموں کا کوئی خاص حرج نہیں ہے، کیونکہ اگر یہ کام غلط ہوتے تو خلیفہ کے نمائندے نہ کرتے۔ بالآخر کام یہاں تک پہنچ گیا کہ حتی یزید سرعام شراب پیتا تھا، کتے اور بندر سے کھیلتا تھا لیکن اسے کوئی شخص اعتراض نہیں کرتا تھا۔ جس زمانے میں کسی کو شراب خواری کے ثابت ہونے پر ہی کوڑے مارے جاتے تھے، اس زمانے سے کتنا فرق ہے اِس وقت کا جب خلیفہ روزانہ شراب پیتا ہے؟
اگر ایسے حالات میں حضرت امام حسین (علیہ السلام) فرماتے کہ اے لوگو! گناہ نہ کرو، جو شخص شراب پیئے وہ جہنم جائے گا اور اس طرح کی نصیحتیں، تو کوئی آپؑ کے ارشادات پر توجہ نہ کرتا، حتی اگر آپؑ ان باتوں پر اصرار کرتے تو ہوسکتا تھا کہ آپؑ کو شہید کردیا جاتا۔
* ماخوذ از: در پرتو آذرخش، ص۳۴، آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی، قم، موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی رحمہ اللہ، ۱۳۸۱۔
Add new comment