خلاصہ: اہل بیت (علیہم السلام) کے لاتعداد فضائل میں سے چند فضائل حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے اقوال کی روشنی میں بیان کیے جارہے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور معصومین حضرات، اہل بیت (علیہم السلام) کا تعارف کرواتے رہے ہیں اور مختلف مقامات پر ان کے فضائل و کمالات کو بیان کرتے رہے ہیں، اسی طرح حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے بھی اہل بیت (علیہم السلام) کے فضائل بیان کیے ہیں۔ یہاں پر حضرت اباعبداللہ الحسین (علیہ السلام) کے صرف انہیں ارشادات کا تذکرہ کیا جارہا ہے جو آپؑ نے قیام کربلا کے دوران بیان فرمائے، اختصار کے پیش نظر صرف پانچ موارد کا ذکر کیا جارہا ہے۔
۱۔ جب ولید ابن عقبہ مدینہ کے والی نے معاویہ کی موت کی خبر حضرت امام حسین (علیہ السلام) کو دی اور یزید ابن معاویہ کے حکم کے مطابق آپؑ سے بیعت مانگی تو آپؑ نے فرمایا: "إنّا أهل بيت النبوّة، و معدن الرسالة؛ و مختلف الملائكة؛ و مهبط الرحمة؛ بنا فتح اللّه و بنا ختم"[1]، ہم نبوت کے اہلبیت ہیں اور رسالت کا معدن، ملائکہ کے آمد و رفت کی جگہ، اور رحمت کے نزول کی جگہ۔ اللہ نے (اپنے دین اسلام کو) ہمارے گھرانہ سے شروع کیا ہے اور (اسے ہمارے گھرانہ) کے ذریعہ اختتام پذیر کرے گا۔
۲۔ حضرت سیدالشہدا (علیہ السلام) نے مقام شراف میں نماز عصر کے بعد، اپنے اصحاب اور حُر ابن یزید ریاحی کے لشکر سے فرمایا: "نَحنُ أهلُ بَيتِ مُحمَّدٍ أولى بِوَلايَةِ هذَا الأَمرِ عَلَيكُم مِن هؤُلاءِ المُدَّعينَ ما لَيسَ لَهُم، والسّائِرينَ فيكُم بِالجَورِ والعُدوانِ"[2]، "ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے اہل بیت تم پر حکومت کرنے کے لئے زیادہ لائق ہیں ان بے بنیاد دعویداروں سے اور وہ جو تم میں ظلم و ستم سے برتاو کرتے ہیں"۔
۳۔ یہ جملات حضرت سیدالشہدا (علیہ السلام) کے اس خطبہ میں سے ہیں جو آپؑ نے عاشورا کی رات، اپنے اہل بیت اور اصحاب کے لئے ارشاد فرمائے: "اللَّهُمَّ إنِّي أحمَدُكَ عَلى أن أكرَمتَنا بِالنُّبوَّةِ وَعَلَّمتَنا القُرآنَ وَفَقَّهتَنا فِي الدّينِ ، وَجَعلتَ لَنا أسماعاً وَأبصاراً وَأفئِدَةً ، فَاجعَلنا مِنَ الشّاكِرين [3]"، "بارالہا! میں تیری حمد کرتا ہوں اس پر کہ تو نے ہمیں نبوت کے ذریعہ ہمیں عزت دی اور ہمیں قرآن کی تعلیم دی اور ہمیں دین شناس بنایا اور ہمارے لیے کان اور آنکھیں اور دل قرار دیئے لہذا ہمیں شکرگزاروں میں سے قرار دے" ."[4]
۴۔ حضرت سیدالشہدا (علیہ السلام) نے کربلا میں فرمایا: "اللّهُمَّ إنّا أهلُ بَيتِ نَبِيِّكَ وذُرِّيَّتُهُ وقَرابَتُهُ، فَاقصِم مَن ظَلَمَنا وغَصَبَنا حَقَّنا، إنَّكَ سَميعٌ قَريبٌ"[5]، "بارالہا! ہم تیرے نبی کے اہل بیت اور اولاد اور قرابتدار ہیں، جس نے ہم پر ظلم کیا اور ہمارے حق کو غصب کیا اسے نابود کر، بیشک تو بڑا سننے والا بالکل قریب ہے"۔
۵۔ حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے مکہ سے جو خط بصرہ کی بڑی شخصیتوں کو تحریر فرمایا اس میں سے دو فقرے یہ ہیں: ان وَ كُنّا أهلَهُ وَ أولِياءَهُ وَ أوصِياءَهُ وَ وَرَثَتَهُ وَ أحَقَّ النّاسِ بِمَقامِهِ فِي النّاسِ… نَعلَمُ أنّا أحَقُّ بِذلِكَ الحَقِّ المُستَحقِّ عَلَينا مِمَّن تَوَلّاهُ"[6]، "اور ہم پیغمبرؐ کا خاندان، اولیا، اوصیا، وارثین ہیں اور لوگوں میں سب سے زیادہ آنحضرتؐ کے مقام کے حقدار ہیں ... حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم اس حق (حکومت) کے اس شخص سے زیادہ حقدار ہیں جس نے اسے (ناحق) لے لیا ہے"۔
نتیجہ: حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے اہل بیت (علیہم السلام) کے فضائل بیان فرمائے، جبکہ لوگ پہلے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یا آنحضرتؐ کے اصحاب سے اہل بیت (علیہم السلام) کے فضائل و مناقب سن چکے تھے، اس کے باوجود انہوں نے نواسہ رسولؐ پر اتنے ظلم و ستم ڈھائے، جیسے وہ نہ اہل بیت (علیہم السلام) کو جانتے تھے اور نہ ہی امام حسین (علیہ السلام) کو، حالانکہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مختلف مقامات پر زبانی اور عملی طریقوں سے اہل بیت (علیہم السلام) کی عظیم شان و منزلت کو لوگوں کے لئے واضح کرچکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] مقتل الحسین علیه السلام ، خوارزمی، ج1، ص267۔
[2] أعيان الشيعة ، سید محمد امین، ج1، ص591۔
[3] بحار الأنوار، علامہ مجلسی، ج44، ص392۔
[4] الارشاد، شیخ مفید، ج2، ص91۔
[5] بحار الأنوار، علامہ مجلسی، ج45، ص302۔
[6] مكاتيب الأئمّة، احمدی میانجی، ج3، ص132۔
Add new comment