خلاصہ: امام حسین (علیہ السلام) کی تحریر کے سلسلہ میں چند نکات بیان کیے جارہے ہیں۔
حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے روانگی کے وقت کاغذ منگوایا اور تحریر فرمایا:
"بسم اللہ الرحمن الرحیم، مِنَ الحُسَیْنِ بُنِ عَلیّ اِلیٰ بَنی ھاشِم، اَمَّا بَعْدُ، فَاِنّہُ مَنْ لَحِقَ بی مِنْکُمْ اِسْتَشْھَدَ، وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنّی لَمْ یَبْلُغِ الْفَتْحَ، وَالسَّلامُ"، "بسم اللہ الرحمن الرحیم، حسینؑ ابن علیؑ کی طرف سے بنی ہاشم کو، "اما بعد، تم میں سے جو شخص میرے ساتھ ملحق ہوگیا وہ شہادت تک پہنچ جائے گا، اور جس نے مجھ سے خلاف ورزی کی (میرے ساتھ ملحق نہ ہوا) وہ فتح تک نہیں پہنچے گا، والسلام"۔ [لہوف، ص۹۴]
حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی اس تحریر سے چند ماخوذ نکات یہ ہیں:
۱۔ جب امامؑ اپنی طرف بلائیں تو انسان کو امامؑ کی آواز پر لبیک کہنی چاہیے۔
۲۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار کی قوت دی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان جس راستے کو بھی انتخاب کرلے وہی اس کے فائدے میں ہے، نہیں! بلکہ اختیار کی طاقت کو دیگر طاقتوں کی طرح معصومؑ کے حکم کی اطاعت پر استعمال کرنا چاہیے، تب یہ اختیار کی طاقت کمال تک پہنچتی ہے ورنہ جو طاقت معصومؑ کے حکم کی تابعداری اور فرمانبرداری پر استعمال نہ ہو، وہ ضائع ہوگئی ہے۔
۳۔ ہوسکتا ہے کہ بعض اوقات امتحان ایسا ہو کہ اس کا نتیجہ معلوم نہ ہو اور انسان کامیابی اور ناکامی کے معلوم نہ ہونے کی وجہ سے شک و حیرت میں پڑجائے کہ کس راستے کو اختیار کرے، لیکن اس امتحان میں آپؑ نے نتیجہ کو واضح کردیا یعنی کامیاب ہونے کا یقینی راستہ اور ناکام ہونے کا بھی یقینی راستہ بیان فرما دیا۔
[لہوف، سید ابن طاووس، ترجمہ: سید جواد رضوی، ص ۹۴، ناشر: موعود اسلام]
Add new comment