خلاصہ: عبداللہ ابن عمر نے حضرت امام حسین (علیہ السلام) کو مشورہ دیا تو آپؑ نے اسے جو جواب دیا، وہ بیان کیا جارہا ہے۔
حضرت امام حسین (علیہ السلام) سے مختلف لوگوں نے جو گفتگو کی، آپؑ نے ہر ایک کو مناسب اور اس کی سوچ اور فہم کے مطابق جواب دیتے تھے، عبداللہ ابن عمر نے جو آپؑ کو مشورہ دیا تو آپؑ نے یہ جواب ارشاد فرمایا:
"يا اَباعَبْدِالرَّحْمنِ اَما عَلِمْتَ اَنَّ مِنْ هَوانِ الدُّنْيا عَلَى اللّهِ اَنَّ رَاْسَ يَحْيَى بْنِ زَكَرِيّا اُهْدِىَ اِلى بَغِي مِنْ بَغايٰا بَنِى اِسْرائيل؟ اَما تَعْلَمُ اَنْ بَنِى اِسْرائيل كانُوا يَقْتُلُونَ مابَيْنَ طُلُوعِ الْفَجْرِ اِلى طُلُوعِ الشَّمْسِ سَبْعِينَ نَبِيَّاً ثُمَّ يَجْلِسُونَ فى اَسْواقِهِمْ يَبِيعُونَ وَيَشْتَرُونَ كَاَنْ لَمْ يَصْنَعُوا شَيْئاً فَلَمْ يُعَجِّلِ اللّهُ عَلَيْهِمْ بَلْ اَمْهَلَهُمْ وَاَخَذَهُمْ بَعْدَ ذلِكَ اَخْذَ عَزِيْزٍ ذى انْتِقامٍ اِتَّقِ اللّهَ يا اَباعَبْدالرَّحْمنِ وَلا تَدَعُنَّ نُصْرَتى"۔
"اے اباعبدالرحمن! کیا تم نے نہیں جانا کہ اللہ کے لئے دنیا اتنی پست ہے کہ یحیی ابن زکریا کا سر، بنی اسرائیل کے ظالموں میں سے ایک ظالم کے لئے ہدیہ بھیجا گیا؟ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ بنی اسرائیل طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک ستر انبیاء کو قتل کرتے تھے، پھر اپنے بازاروں میں بیٹھ جاتے تھے خرید و فروخت کرتے تھے جیسے انہوں نے کچھ کیا ہی نہیں تو اللہ نے ان کے (عذاب میں) جلدی نہ کی بلکہ انہیں مہلت دی اور اس (مہلت کے گزرنے) کے بعد ان سے شدید انتقام لیا۔ اللہ کا تقوا اختیار کرو اے اباعبدالرحمن اور میری نصرت کو مت چھوڑو"۔
صدوق (علیہ الرحمہ) کی نقل کے مطابق، جب عبداللہ ابن عمر کو مشورہ دینے سے کوئی نتیجہ نہ ملا تو عرض کیا: اے اباعبداللہ! میں اس جدائی کے وقت چاہتا ہوں کہ مجھے اجازت دیں کہ آپؑ کے بدن کے جس حصہ کا رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ) نے کئی بار بوسہ لیا، وہاں کا میں بھی بوسہ لوں۔ امام (علیہ السلام) نے اپنا قمیص ہٹایا اور عبداللہ نے آپؑ کے سینہ سے نیچے کے تین بوسہ لیے اور روتے ہوئے یہ کہا: "اَسْتَوْدِعُكَ يا اَباعَبْدِاللّه..."، "آپ کو اللہ کے حوالے کرتا ہوں اے اباعبداللہ اور آپ سے خداحافظی کرتا ہوں، کیونکہ آپ اس سفر میں قتل کردیئے جائیں گے"۔
[ماخوذ از: سخنان حسین بن علی (علیہماالسلام) از مدینہ تا کربلا، تصنیف: آیت اللہ محمد صادق نجمی]
Add new comment