خلاصہ: حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے مدینہ سے روانگی سے پہلے یزید کی بیعت سے اپنی انتہائی مخالفت کا اظہار کیا جو ہمارے لیے نمونہ عمل اور چراغ ہدایت ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جب حضرت امام حسین (علیہ السلام) مکہ کی طرف روانہ ہونے لگے تو جناب محمد حنفیہ ؒنے آپؑ کو اپنی صلاح پیش کی کہ آپؑ کیسا راستہ اختیار کریں تو آپؑ نے فرمایا: "یا اَخی وَاللّهِ لَوْ لَمْ یَکُنْ فی الدُّنْیا مَلْجَاً وَ لا مَاْوىً، لَما بایَعْتُ یَزیدَ بَنْ مُعاوِیۃ"، "اے میرے بھائی، اگر دنیا میں کوئی پناہگاہ اور ٹھکانہ نہ ہو تو پھر بھی میں یزید ابن معاویہ سے بیعت نہیں کروں گا"۔ [سخنان حسین ابن علی علیہماالسلام از مدینہ تا کربلا،ص 18]
آپؑ کا یہ جملہ آپؑ کے پختہ ارادہ اور مضبوط عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔ آپؑ کے اس کلام سے انقلاب کے رہبر و راہنما کا دستورالعمل واضح ہوتا ہے کہ رہبر میں اتنی پائداری اور استقامت کی قوت ہو کہ باطل سے ہرگز بیعت نہ کرے، چاہے اسے اتنی وسیع زمین میں کوئی پناہگاہ اور ٹھکانہ نہ ملے۔
لیکن اگر اس نے کسی صورت میں بھی باطل سے بیعت کرلی تو اسے جتنا اعلیٰ قسم کا ٹھکانہ اور بہترین پناہگاہ مل جائے تو سوائے گمراہی اور ہلاکت کے اسے کچھ نصیب نہیں ہوا۔
حضرت سیدالشہداء (علیہ السلام) کا وہ قیام اور انقلاب ایسی طاقت کا حامل ہے کہ سدیوں سے اس کا سلسلہ جاری ہے اور ہر سال حضرتؑ کے محبوں میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، ہر سال عزاداری بڑھتی جارہی ہے اور ہدایت کے اُس چراغ کا نور دنیابھر کو پہلے سے زیادہ روشن کررہا ہے۔ یہ سب کچھ باطل سے بیعت نہ کرنے پر قائم ہے۔
ہر معاشرہ اور ہر انقلاب کے لئے اس میں ہدایت کا درس ہے کہ باطل سے ہرگز بیعت نہ کی جائے، اِس بیعت نہ کرنے میں اس انقلاب کی کامیابی ہے، البتہ انقلاب وہی جو عاشورا سے منسلک ہو اور اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات کے مطابق ہو، جیسے ایران کا انقلاب، جس کے رہبر آیت اللہ امام خمینی (علیہ الرحمہ) نے مظلومِ کربلا کی تعلیمات سے درس لیتے ہوئے، صرف ایران میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں انقلاب بپا کردیا جس کے اثرات زمانے کے گزرنے سے رونما ہورہے ہیں اور اس انقلاب کی رہبریت کو آیت اللہ خامنہ ای سنبھالے ہوئے انقلاب کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، ایران کے ان دو رہبروں نے حضرت سیدالشہداء (علیہ السلام) کی سیرت پر چلتے ہوئے اس قدر مضبوط رہے ہیں کہ جو دشمن ان سے ٹکرایا، اس دشمن کو ناکامی ہوئی، یہ امام حسین (علیہ السلام) کی سیرت پر عمل کرنے کا دورِ حاضر میں بہت بڑا عملی نمونہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[سخنان حسین بن علی (علیہماالسلام) از مدینہ تا کربلا، تصنیف: آیت اللہ محمد صادق نجمی[
Add new comment