چالاکی یہ ہے!

Sun, 08/18/2019 - 11:30

خلاصہ: جو عموماً چالاکی سمجھی جاتی ہے وہ اور ہے اور جو حقیقت میں چالاکی ہے وہ اور ہے، ایک حقیقی چالاکی کے سلسلہ میں اس مضمون میں گفتگو کی جارہی ہے۔

چالاکی یہ ہے!

     حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "كَفَي بِالمَرءِ كَيِّساً أَن يَعرِفَ مَعَايِبَهُ"، "آدمی کی چالاکی کے لئے کافی ہے کہ اپنے عیبوں کو پہچانے"۔ [غررالحکم، ص۵۲۰، ح۳۳]
بعض لوگ اپنے آپ کو چالاک ظاہر کرنے کے لئے لوگوں کے عیب تلاش کرکے دوسرے لوگوں کو بتاتے ہیں، وہ ایک طرف سے لوگوں کو دوسرے لوگوں کے عیبوں میں مصروف کردیتے ہیں اور دوسری طرف سے اپنے عیبوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں تاکہ لوگ ان کے عیبوں کو نہ دیکھیں یا کم سے کم ان کے اپنے کے لئے پردہ حائل ہوجاتا ہے اور وہ اپنے عیبوں کو نہیں دیکھ سکتے، وہ اس طریقے سے اپنے آپ کو چالاک اور سمجھدار ظاہر کرتے ہیں، جبکہ بالکل ایسا نہیں ہے۔ مذکورہ حدیث کے مطابق چالاک اور سمجھدار آدمی وہ ہے جو اپنے عیبوں کو پہچانے۔
جو شخص لوگوں کے عیب تلاش کرتا ہے وہ اپنے عیب نہیں ڈھونڈتا، لہذا وہ چالاک اور سمجھدار نہیں ہے، بلکہ اگر اپنے عیبوں کو پہچانے تو تب چالاک ہے۔
مثال کے طور پر جو آدمی بات کرتے ہوئے غور کرتا ہے کہ کیا ضرورت جتنی بات کرتا ہے یا ضرورت سے زیادہ اور لاحاصل باتیں کرتا ہے تو اپنے اس عیب کو پہچان لیتا ہے کہ اس کی کتنی باتیں اضافہ ہوتی ہیں، لہذا چالاک اور سمجھدار آدمی یہ ہے۔ یہ شخص کوشش کرے گا کہ اپنے عیب کو ختم کرے۔
جو شخص کسی کے پاس کوئی چیز دیکھتا ہے تو اس پر امید رکھ لیتا ہے کہ یہ شخص یہ چیز مجھے دیدے، اس کے بعد اپنی اس خواہش پر غور کرتا ہے کہ یہ تو لالچ ہے اور لالچ بری عادت اور عیب ہے جو مجھے اپنے سے ختم کرنا چاہیے، اس آدمی نے کیونکہ اپنے عیب کو پہچان لیا تو یہ چالاک اور سمجھدار ہے، ورنہ کسی سے کوئی چیز مانگ لینا اور دل میں امید رکھنا کہ یہ اس شخص سے مجھے یہ چیز مل جائے تو یہ چالاکی اور سمجھداری نہیں ہے۔
* غرر الحكم و درر الكلم، آمدی، ص۵۲۰، ح۳۳، ناشر: دار الكتاب الإسلامي، قم، ۱۴۱۰ ھ . ق۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
18 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 57