خلاصہ: جب کسی آدمی کو اس کا ظاہری عیب بتایا جائے تو اس کا ردّعمل اچھا ہوتا ہے، لیکن اگر باطنی عیب بتایا جائے تو اس کا ردّعمل اچھا نہیں ہوتا، اس کی وجہ کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے۔
اگر ظاہری عیب مثلاً چہرے پر کوئی داغ لگا ہو تو اس سے ہمیں کوئی مطلع کردے تو ہم اس کا شکریہ ادا کریں گے کہ آپ نے بہت اچھا کیا کہ بتادیا ورنہ اگر میں لوگوں کے سامنے اسی طرح جاتا تو یہ کتنا بے عزتی کا باعث تھا۔ آدمی اپنے ایسے عیبوں کو لوگوں کی زبان سے سن کر ان کا شکریہ ادا کرتا ہے، لیکن اپنے غلط کام، غلط عادات اور غلط صفات سے متعلق عیب کو کسی کی زبان سے سننا پسند نہیں کرتا! کیوں؟ اس لیے کہ ظاہری عیب کا نقصان دکھائی دیتا ہے تو انسان اس نقصان سے بچنے کو ضروری سمجھتا ہے اور اگر اس نقصان سے نہ بچے تو ہوسکتا ہے کہ وہ عیب مثلاً اس کی بے عزتی کا باعث ہو، لہذا عیب بتانے والے کو اپنا دوست اور خیرخواہ سمجھتا ہے، لیکن جو اسے اس کے باطنی اور اندرونی عیب سے مطلع کرتا ہے اسے اپنا خیرخواہ اور دوست نہیں سمجھتا! کیوں؟ اس لیے کہ اپنے عیب کو اپنے نقصان کا باعث نہیں سمجھتا۔ اگر انسان اس ادراک تک پہنچ جائے کہ اس کے عیب اس کو مختلف موقعوں پر طرح طرح کے نقصانات پہنچاتے ہیں تو اپنے ان عیبوں کو یعنی غلط کام، غلط عادات اور غلط صفات کو دور کرنے کی کوشش کرے گا، لہذا جب کوئی شخص اسے اس کا عیب بتائے گا تو یہ اس کا شکریہ بھی ادا کرے گا اور اسے اپنا دوست، محبوب اور خیرخواہ بھی سمجھے گا، اس لیے کہ اس شخص نے اسے نقصان سے بچایا ہے۔
البتہ واضح رہے کہ جب کسی کو اس کا عیب بتایا جائے تو کسی کے سامنے نہ بتایا جائے، بلکہ اکیلے میں بتانا چاہیے۔ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "نصحك بين الملإ تقريع"، "لوگوں کے سامنے تمہاری (کسی شخص کو) نصیحت کرنا، (اس شخص کی) مذمت ہے"۔ [غررالحکم، ص۷۲۰، ح۱۷]
* غررالحکم و دررالکلم، آمدی، ناشر: دار الكتاب الإسلامی، قم، ۱۴۱۰ ھ . ق۔
Add new comment