خلاصہ: دیکھنے کے دو ذریعے ہیں: سر کی آنکھیں اور دل کی آنکھیں، بعض چیزوں کو سر کی آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں، بلکہ دل کی آنکھیں دیکھ سکتی ہیں۔
حضرت امام علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "أبْصَرُ النّاسِ مَن أبْصَرَ عُيوبَهُ و أقْلَعَ عن ذُنوبِهِ"، "سب سے زیادہ دیکھنے والا شخص وہ ہے جو اپنے عیبوں کو دیکھے اور اپنے گناہوں سے جدا ہوجائے"۔ [غررالحکم و دررالکلم، ص۱۹۷، ح۲۳۵]
آنکھیں، قوتِ بینائی اور دیکھ سکنا، اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ہیں اور جسمانی کمال ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب سے زیادہ وہی شخص دیکھنے والا ہے جس کے سر کی آنکھیں صحت مند ہوں، کسی قسم کی کمزوری کا شکار نہ ہوں اور اچھی طرح دیکھ سکیں، بلکہ دیکھنے والی ایک اور قوت بھی ہے جسے استعمال کیا جائے تو درحقیقت وہ انسان کے کمال کا باعث ہے۔ وہ بصیرت، درک و فہم، سمجھنے کی طاقت اور دل کی آنکھیں ہیں۔ انسان کی آنکھوں کی نظر جتنی بھی تیز اور صحیح و سلامت ہو، لیکن اس کے دل کی آنکھیں اندھی ہوں تو وہ انسان کمال کی منازل اور معنوی درجات کو طے نہیں کررہا۔
اس حدیث کے متعلق غورطلب بات یہ ہے کہ اپنے عیبوں کو دیکھ کر ان کو ختم کرنا، بصیرت کا ایک درجہ ہے، مگر یہاں لفظ "اَبصرالناس" استعمال ہوا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ "لوگوں میں سے سب سے زیادہ بصیرت رکھنے والا شخص"، اس سے واضح ہوتا ہے کہ بصیرت کے مختلف درجات ہیں کہ جو آدمی جتنا زیادہ اپنے عیبوں کو سمجھ کر ان کو ختم کرے اور اپنے گناہوں سے الگ ہوجائے وہ اتنا ہی زیادہ بصیرت رکھنے والا ہوگا۔
ایسا نہیں ہے کہ اگر آدمی اپنے چند ایک عیب اور گناہ تلاش کرکے ان کو ختم کردے توپھر وہ سب سے زیادہ بصیرت رکھنے والا بن گیا ہے، نہیں، بلکہ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے، کیونکہ انسان جتنا زیادہ اپنے عیبوں کو تلاش کرتا رہے اتنا ہی زیادہ اپنے عیبوں کو پہچانتا جائے گا اور ان کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔
* غرر الحكم و درر الكلم، آمدی، ص۱۹۷، ح۲۳۵، ناشر: دار الكتاب الإسلامي، قم، ۱۴۱۰ ھ . ق۔
Add new comment