خلاصہ: عموماً انسان کو مادی ہدیہ پسند ہوتا ہے اور معنوی ہدیہ سے غافل ہوتا ہے، ان دونوں ہدیوں میں فرق پائے جاتے ہیں۔ معنوی ہدیہ مادی ہدیہ سے بہتر اور زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: "أحَبُّ إخواني إلَيَّ مَن أهدى إلَيَّ عُيوبي"، "میرا سب سے زیادہ محبوب بھائی وہ ہے جو میرے عیب مجھے ہدیہ دے"۔ [تحف العقول، ص ۳۶۶]
اس حدیث سے طرفین کا باہمی تعلق سمجھ میں آتا ہے۔ یعنی جو عیب بتانے والا ہے وہ ہدیہ دینے والا ہے، اور جس آدمی کو اس کا اپنا عیب بتایا جارہا ہے اسے چاہیے کہ عیب بتانے والے کو اپنا (دینی) بھائی سمجھے اور جن دینی بھائیوں سے اسے محبت ہے، ان سے زیادہ اِس دینی بھائی سے محبت رکھے جس نے اسے اس کا عیب بتایا ہے۔
انسان اپنے دینی بھائیوں اور دوستوں کو صرف مادی ہدیہ نہ دے، بلکہ معنوی ہدیہ بھی دینا چاہیے، ان ہدیوں میں سے ایک ہدیہ یہ ہے کہ اپنے دینی بھائی کو اس کا عیب بتایا جائے۔
مادی ہدیہ استعمال کرنے سے ختم ہوجاتا ہے، لیکن معنوی ہدیہ ختم نہیں ہوتا، جیسے اپنے دینی بھائی کو اس کا عیب بتانا۔ جب آدمی اس ہدیہ کو ہدیہ سمجھ کر اپنے اندر پائے جانے والے عیب کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اپنے اندر ایسی وسعت اور تبدیلی پاتا ہے کہ اس کے ہدیہ ہونے کو سمجھ جاتا ہے۔
مادی ہدیہ کو محدود حد تک استعمال کیا جاسکتا ہے اور بالآخر رفتہ رفتہ زوال کا شکار ہوجاتا ہے، لیکن معنوی ہدیہ خود بھی استعمال کے لائق ہوتا ہے اور اس سے کئی دیگر ہدیے نکالے جاسکتے ہیں۔
وضاحت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے دینی بھائی کو اس کا عیب بتائے تو وہ اپنے ایک عیب کو اپنے سے دور کرے گا تو اگر توجہ کرے تو وہ کئی لحاظ سے اپنے آپ کو کئی دیگر عیبوں سے بھی پاک کرسکتا۔
ایک پہلو یہ ہے کہ وہ جب ایک عیب سے پاک ہوگیا تو ہوسکتا ہے کہ کئی دیگر عیبوں سے اسے چھٹکارا مل جائے، کیونکہ وہ ایک عیب کئی عیبوں کی کنجی تھی۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب اسے اس کا ایک عیب بتایا گیا تو اگر غور کرے تو متوجہ ہوسکتا ہے کہ شاید میرے اندر اور عیب بھی پائے جاتے ہوں، مجھے اپنے عیب تلاش کرنے چاہئیں اور ان کو ختم کرنا چاہیے۔ لہذا مومن بھائی نے اسے جب اس کا ایک عیب بتادیا تو اس کا بتانا برکت کا باعث بن سکتا ہے کہ جسے اس کا عیب بتایا جارہا ہے وہ کئی عیبوں سے نجات پاجائے اور نیز اپنے دیگر کئی عیبوں کی طرف متوجہ ہوجائے۔
* تحف العقول، ابن شعبة الحراني، مؤسسة النشر الاسلامي، ص ۳۶۶۔
Add new comment