خلاصہ: انسان کے پاس جب مال آجاتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ انسان اسباب و وسائل پر بھروسہ کرنے لگے اور یہ سمجھ لے کہ جو اسباب اس کے پاس ہیں، یہ مال تو ان کی بدولت اسے ملا ہے، جبکہ خیال رہنا چاہیے کہ ان اسباب کو بھی اللہ تعالیٰ نے فراہم کیا ہے، ورنہ وہ شخص یہ مال حاصل نہ کرپاتا۔
انسان کی توجہ رہنی چاہیے کہ اگر وہ مالدار بن گیا ہے تو اگرچہ وہ مال ظاہری وسائل و اسباب کے ذریعے اس تک پہنچتا ہے، لیکن حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے اسے مال عطا فرمایا ہے، کیا وہ سمجھتا ہے کہ جو مال اس کے پاس ہے وہ تب اللہ کا دیا ہوا شمار ہوتا ہے کہ وہ براہ راست اور بغیر وسیلہ کے اللہ سے وصول کرے؟ ایسا تو نہیں ہوسکتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسباب قرار دیئے ہیں اور اسباب کا نظام اپنی حکمت کے تحت رکھا ہے۔
اور اگر انسان مال، وسائل کے ذریعے حاصل کرے تو کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اب یہ اس کا اپنا کمال ہے؟ ایسا بھی نہیں ہے، کیونکہ انسان کمائی کرکے جو مال حاصل کرتا ہے، وہ اس مال کو علم، طاقت، سوچ یا محنت وغیرہ کے ذریعے حاصل کرتا ہے، لیکن اگر اللہ اسے علم اور طاقت وغیرہ عطا نہ کرے تو کیسے مال حاصل کرسکتا ہے؟ اگر اللہ اسے علم اور طاقت وغیرہ نہ دے تو وہ اللہ سے مانگے گا اور اگر اللہ عطا فرمائے تو پھر اپنا کمال سمجھ لے گا اور کہے کہ یہ مال تو میں نے اپنے علم، اپنی طاقت، اپنی سوچ یا اپنی محنت سے کمایا ہے! یہ تو قارونی سوچ ہے جس نے اپنے مال کو اپنے علم کی بدولت سمجھا تھا۔
سورہ قصص کی آیت ۷۸ میں ارشاد الٰہی ہے: "قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِي أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَهْلَكَ مِن قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ جَمْعاً وَلَا يُسْأَلُ عَن ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ"، "قارون نے کہا کہ مجھے جو کچھ (مال و منال) ملا ہے وہ اس (خاص) علم کی بدولت ملا ہے جو میرے پاس ہے کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ اللہ نے اس سے پہلے بہت سی ایسی نسلوں کو ہلاک کر دیا ہے جو قوت میں اس سے سخت تر اور جمعیت میں زیادہ تھیں اور مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں سوال نہیں کرنا پڑتا"۔
لہذا حلال کمائی کے جتنے ذرائع بھی ہوں، انسان کسی بھی ذریعے اور وسیلہ پر فخر نہیں کرسکتا، اس لیے کہ ان ذرائع، اسباب اور وسائل کو اللہ تعالیٰ فراہم کرتا ہے۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment