خلاصہ: ہر انسان اچھے اخلاق کو اپنا سکتا ہے، بس اس کو اس بات کا ارادہ کرنا ہے کے میں ہر کسی کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آؤنگا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بعض لوگ طبیعی طور پر خوش اخلاق ہوتے ہیں اور یہ نعمت بعض لوگوں کو ہی حاصل ہوتی ہے، یہ نعمت ان کو ان کے اعمال کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرتے ہیں، اور بعض لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے اوپر کام کیا ہے اور محنت کی ہے اور پھر اس صفت کو اپنے اندر جگہ دی ہے اور آہستہ آہستہ وقت گزرنے کے ساتھ ان کے اندر اچھے برتاؤ کا ملکہ حاصل ہو جاتا ہے۔[الأخلاق فى القرآن، ج:۳، ص:۱۲۳]
اس صفت کو حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلا کام یہ ہے کہ وہ آیات اور روایات جن میں اچھے اخلاق کا ذکر ہوا ہے ان کو توجہ سے پڑھے۔[جامع السعادات، ج:۱، ص:۳۴۳]
اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کے لئے مسلسل تمرین کریں، یعنی ہر انسان سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئے اور جب بھی کسی انسان سے ملاقات کریں، اس کے بعد یہ سونچےکہ اس نے اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا، کیا دین اسلام کے مطابق عمل کیا ہے یا نہیں، مسلسل توجہ کرنے کے بعد خودبخود یہ صفت انسان کے اندر ایک ملکہ کے طور پر گھر کرلیگی۔[عیون الحکم و المواعظ، ص:۳۴۱]
امام علی(علیہ السلام) فرماتے ہیں: «لِلْعَادَةِ عَلَى کُلِّ إِنْسَانٍ سُلْطَانٌ؛ انسان کے اعضاء جوارح انسان کی عادت کے محتاج ہیں»[عیون الحکم و المواعظ، ص:۴۰۳].
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان ہر کسی کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئے تو اس کا اس اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آنا اس کے اندر ایک ملکہ کا رخ اختیار کرلیتا ہے جس کے بعد اس کو اچھے اخلاق سے پیش آنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہ خود بخود اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آنے کا عادی ہوجاتا ہے، اسی طرح انسان کے برے اخلاق بھی ہے
*الأخلاق فى القرآن، ناصر مکارم شیرازى، ج:۳، ص:۱۲۳، مدرسة الامام على بن ابى طالب(علیہما السلام)، قم، تیسری چاپ.
*جامع السعادات، ملا محمد مهدى نراقى، ج:۱، ص:۳۴۳، اعلمى، بیروت، چوتھی چاپ، بیتا، اور الأخلاق فى القرآن، ناصر مکارم شیرازى، ج:۳، ص:۱۲۳۔
*عیون الحکم و المواعظ، علی لیثی واسطی، محقق اور مصحح: حسین حسنی بیرجندی، ص:۳۴۱، دار الحدیث، قم، پہلی چاپ، ۱۳۷۶ش.
[
Add new comment