خلاصہ: اس مضمون میں مختصر طور پر امام رضا علیہ السلام کے عام اخلاق اور کردار کی کچھ عکاسی کی گئی ہے۔
معصومین(علیہم السلام) کی ذات، تمام انسانوں اور خاص طور پر انکے پیروکاروں کے لئے عظیم رہنما اور مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی زندگی اور کردار کا ہر پہلو، ہر طبقہ کے انسان کے لئے نمونہ عمل ہوا کرتا ہے۔ اس بات کے تناظر میں جب ہم امام رضا علیہ السلام کی عظیم شخصیت پر نظر ڈالتے ہیں تو یقینا ان کی زندگی کا ہرپہلو، پوری انسانیت کی ترقی، کمال اور کامیابی کی ضامن ہے۔ اس مختصر مضمون میں ہم آپؑ کی شخصیت کے کچھ اخلاقی پہلو کو رقم کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔
اخلاق، ایک انسان کی شخصیت کا اہم پہلو ہوتا ہے اور اس کی پہچان اور مقبولیت کا اہم ذریعہ بھی۔ پیغمبرگرامی اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کہ اخلاق اور انسانیت کے لحاظ سے کامل انسان تھے، انھوں نے اپنی رسالت کے مقصد کو انسانی اخلاق کت کمال تک پہونچنے کو جانا ہے(۱)۔ائمہ معصومین علیہم السلام بھی پیغمبرؐ کے کردار کی تجلی تھے اور پیغمبرؐ کو اپنی زندگی میں نمونۂ عمل قرار دیتے تھے؛ اور اپنے عمل کے ذریعہ، لوگوں کو صحیح کردار کی جانب ترغیب دلاتے تھے اور اس طرح سے اخلاق پر منحصر درس کو سیکھایا۔
اس بارے میں صادق آل محمد(ع) نے ، اپسی ہمدلی اور قربت کے رابطے کو بڑھانے اور مضبوط کرنے کے لئے ہر دور کے انسانوں کے سامنے ایک اہم معیار پیش کرتے ہوئے فرمایا: «کونوادعاةالناس باعمالکم ولا تکونوادعاةبألسنتکم» لوگوں کو اپنے اعمال(کردار) کے ذریعہ دعوت دو نہ کہ اپنے زبان سے بلانے والے بنو(۲)۔
امام رضا علیہ السلام نے بھی اپنے اچھے اخلاق کے ذریعہ، تربیت کے مناسب طریقوں کو پیش کیا جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
ابراہیم ابن صولی سے منقول ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے کبھی بھی:
’’گفتگو اور بات چیت میں کسی سے سختی اور جفا نہیں کی۔
کسی کی بات کو مکمل ہونے سے پہلے منقطع نہیں کیا۔
کسی کی درخواست کو اس پر قدرت رکھنے کے حالت میں رد نہیں کیا۔
اپنے پیروں کو اپنے ہمنشینوں کے سامنے پھیلائے نہیں۔
اپنے غلاموں کے ساتھ برے اور ناسزا الفاظ میں گفتگو نہیں کی۔
آب دہان کو زمین پر نہیں گرایا۔
قہقہہ نہیں لگاتے تھے بلکہ مسکراہٹ ہی آپ کی ہنسی تھی۔
(اور اس کے علاوہ ) اپنے غلاموں کو دسترخوان پر بیٹھاتے تھے اور ان کے ساتھ کھانا تناول کرتے تھے۔اگر کوئی گمان کرے کی فضیلت کے لحاظ سے انکے مانند کسی کو دیکھا ہے تو اس کی تصدیق نہ کرو‘‘(۳)۔
مذکورہ باتیں، امام(ع) کے بعض عادات و اطوار ہیں اور ان کے علاوہ آپؑ کی مکمل زندگی، بہترین اخلاق و کردار کا عظیم مجموعہ ہے جس کے مطالعہ سے ایک منصف انسان کے فکری اضطراب کو آرامبخش سہارا ملتا ہے اور خوشحالی اور کامیابی سے لبریز زندگی گزارنے کا بہترین سلیقہ حاصل ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
۱۔ محمد باقرمجلسی، بحار الانوار، ج ۱۶، ص ۲۸۷.
۲۔ محمد باقرمجلسی، بحار الانوار، ج ۲ ص ۷۸.
۳۔ ابی جعفر، محمد بن علی بن حسین شیخ صدوق، علل الشرایع، ج ۲ ص ۴۳۲.
Add new comment