اخلاق آسمانی

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده:مسلمان کے لئے عمدہ اور حسین اخلاق کا مالک ہونا بہت ضروری ہے۔ اخلاق حسنہ میں عفو و درگزر، صبر و تحمل، قناعت و توکل، خوش خلقی و مہمان نوازی، توضع و انکساری، خلوص و محبت، جیسے اوصاف قابل ذکر ہیں۔ حُسن خلق کی بڑی علامت یہ ہے کہ جب کسی پر غصہ آئے اور اسے سزا دینا چاہے تو نفس کو ہدایت کرے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے : وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ.[1]
’’اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں۔‘‘آل عمران،134[1]

اخلاق آسمانی

اسلام کا اصل ہدف یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کے لیے مہربان ہوں، ایک دوسرے کے حالات اور مستقبل سے پوری دلچسپی رکھیں، ایک دوسرے کے ہمدرد ہوں، ایک دوسرے کی بھلائی چاہیں، ایک دوسرے کی غلطیوں اور تکالیف سے متاثر ہوں، ایک دوسرے کے لئے دعا کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں۔ "وتواصوا بالمرحمۃ" یہ دوستی، محبت کا رشتہ، یہ بھائیوں میں محبت ومہربانی، خیر خواہی، خیر اندیشی، یہ سب بہت اچھی اور ممتاز صفات ہیں۔ اپنے اندر ان صفات کی تقویت کرنی چاہئے۔ انسان کے لئے سب سے بری صفت یہ ہے کہ انسان خود کو اپنے مادی مفادات کو بنیاد قرار دے اور اپنی ذات کی تسکین اور ذاتی خواہش کی تکمیل پر بے شمار انسانوں کو موت کے خطرے سے دوچار کرنے اور مصیبتوں میں مبتلا کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے اعزاء میں سے ایک شخص آپ کے پاس آیا اور آپ کو برا کہنےلگا ، حضرت اس کے جواب میں کچھ نہ لے، جس وقت وہ شخص مجلس سے باہر چلا گیا ،تو حضرت نے اپنے مہمانوں سے فرمایا:تم نے  اس شخص کی باتیں سنیں ؟
اب میں چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ آؤ تاکہ اس کے پاس چلیں اور اس کی گالیوں کا جواب دیں ۔
ان لوگوں نے امام کی فرمائش قبول کی اور کہا:ہم سب بھی چاہتے تھے کہ آپ اس کا جواب دیتے ۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام روانہ ہوئے اور اس آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی :جو لوگ اپنے غصہ کو جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ۔ وہ نیک ہیں اور خدا نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ [1]
راوی  نے کہا : ہم اس آیت کی تلاوت سے سمجھ گئے کہ امام علیہ السلام اس کے ساتھ نیکی کریں گے ۔
جس وقت اس شخص کے گھر پہنچے امام نے اس کو آواز دی اور دربان سے کہا کہ اس کو بتادو کہ علی ابن الحسین علیہما السلام  بلا رہے ہیں ۔
اس شخص نے جیسے ہی امام علیہ السلام کو دیکھا گمان کیا کہ حضرت ان گالیوں کا جواب دینے کے لیے آئے ہیں ، حضرت نے فرمایا: بھائی تم میرے پاس آئے اور ناگوار باتیں کہیں ، اگر وہ برائیاں جو تم نے کہیں ہیں واقعاً میرے اندر ہیں تو خداوند متعال سے چاہتا ہوں کہ مجھے بخش دے اور اگر جو کچھ تم نے کہا ہے میرے اندر نہیں ہے تو خدا تمہیں بخش دے ۔
اس شخص نے امام علیہ السلام کی باتوں کو سنا تو حضرت کی پیشانی کا بوسہ لیا اور کہا : جو کچھ میں نے کہا ہے وہ آپ کے اندر نہیں ہے میں ہی ان برائیوں کے لائق ہوں۔ [2]

 اوپر بیان کئے گئے مطالب سے کچھ باتیں
۱۔ حسن خلق سے مراد نیک خو اور اچھی خصلت ہے۔
۲۔ غصہ کی حالت میں اپنے غصہ کو پی جانا یہ  اصلی کمال ہے۔
۳۔اگر کوئی آپ کو برا بھلا کہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ بھی ویسا ہی کریں  کیونکہ اگر آپ بھی ویسا ہی کریں گے تو آپ میں اور اس میں کوئی فرق نہیں ہو گا ۔
۴۔اگر آپ کسی کی برائی کا اچھا ئی میں جواب دیں گے تو آپ کا کردار اسے نیکی کرنے پر مجبور کر دے گا ۔
۵۔ اگر کبھی آپ کے پاس کوئی اپنی غلطی کی معافی مانگنے آئے تو آپ اسے خندہ پیشانی سے معاف کر دیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] آل عمران :134
[2] بحار الانوار :ج۴۶،ص۵۴۔شرح الاخبار :ج۳ص۲۵۷۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 80