روزہ کے معنوی اور روحانی فوائد

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: روزہ مختلف فائدوں کا حامل ہے، جسمانی فائدوں کے علاوہ بہت سارے معنوی فائدے بھی روزہ میں پائے جاتے ہیں جیسے تہذیب نفس اور عبادت کی پابندی، نیز روزہ ارادہ کی پختگی اور عزت نفس کا سبب ہے، روزہ کے مختلف مراتب ہیں، کھانے پینے سے پرہیز جس کا تعلق جسم سے ہے، اس سے بڑھ کر دل کا روزہ ہے، ان موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے اس سلسلے میں متعلقہ کچھ روایات کو بھی بیان کیا ہے۔

روزہ کے معنوی اور روحانی فوائد

بسم اللہ الرحمن الرحیم

روزہ کے جسم اور روح پر مختلف اثرات پڑتے ہیں، روزہ اگرچہ بدن پر بھی اہم اثرات کا حامل ہے مگر چونکہ روح کا مقام بدن سے بہت زیادہ ہے تو جو اثرات روح پر پڑتے ہیں ان کی اہمیت بھی جسمانی اثرات سے کہیں بڑھ کر ہے، لہذا ہم یہاں روح پر پڑنے والے اثرات کے سلسلے میں گفتگو کرتے ہیں:

تہذیب نفس اور عبادت کی پابندی
روزہ انسان کے معنوی اور ایمانی ترقی کا باعث ہے اور ایمان کی پرورش کے ذریعے روزہدار کا گناہوں سے بچنے کے لئے ارادہ مزید پختہ ہوجاتا ہے۔ حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں: "عَلَیْکُمْ بِصیامِ شَهْرِ رَمَضانَ فَاِنَّ صِیامَهُ جُنَّهٌ حَصیَنَةٌ"،[1] "ماہ رمضان کے روزے رکھو، کیونکہ ماہ رمضان کے روزے، محفوظ رکھنے والی ڈھال ہے (جہنم کی آگ سے)۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزے کو عبادت کے دروازہ کے طور پر تعارف کرواتے ہیں اور فرماتے ہیں: " لِکُلِّ شَی ءٍ بابٌ و بابُ العبادةِ الصَّوْمُ "[2]، "ہر چیز کا ایک دروازہ ہے اور عبادت کا دروازہ، روزہ ہے"۔
درحقیقت، تہذیب نفس اور عبادت کی پابندی کا آغاز روزے سے کرنا چاہیے۔ کم ہی کوئی عبادت ہے جس کی اہمیت روزے کے برابر ہو، یہاں تک کہ نیند اور آرام کرنے کے وقت بھی روزہ دار کے لئے عبادت کا ثواب شمار ہوتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث میں ہے: " نَوْمُ الصَّائِمِ عِبادَةٌ "،[3] "روزہدار کی نیند، عبادت ہے"۔
حدیث قدسی میں روزہ کے مقام اور عظمت کے بارے میں بیان ہوا ہے: " کُلُّ حَسَنَةٍ بِعَشْرِ اَمْثالِها اِلی سَبْعَمِأةِ ضِعْفٍ الّا الصّیامَ فَاِنَّهُ لی و اَنا اَجْزی بِهِ"[4]، "ہر نیکی کا دس گنا سے سات سو گنا تک ثواب ہے، سوائے روزہ، کیونکہ یقیناً روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کا ثواب عطا کرتا ہوں۔

ارادہ کی پختگی اور عزت نفس
اخلاقی اقدار تک پہنچنا اور آخرت کی سعادت کو فراہم کرنا، تکلیفوں کو برداشت کرنے کی معیت میں ہے۔ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: " اَلْمَکارِمُ بِالْمَکارِه "،[5] " انسانی بلند اقدار، تکلیفوں کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں"۔
دشواریوں پر صبر کرنے کے لئے مضبوط ارادہ کی ضرورت ہے تا کہ اس کے ذریعے آدمی اپنی غیرمعقول اور نامناسب خواہشوں پر غالب ہوجائے۔ آدمی روزہ کی مشقت کو برداشت کرتے ہوئے اپنی نفسانی خواہشات کا مقابلہ کرتا ہے اور اس مقابلہ سے انسان کا ارادہ اور ہمت بلند منزلوں پر پہنچ جاتی ہے اور روزہ اس کی روح کو ہوا و ہوس اور خواہشات کی اسیری سے رہائی دلواتا ہے۔
روزے کے دیگر فوائد میں سے، عزت نفس کا خیال ہے۔ روزہ رکھنے سے انسان سمجھ جاتا ہے کہ روٹی پانی تک پہنچنے کے لئے، لوگوں کی غلامی اختیار نہیں کرنا چاہیے، کسی کا حق پامال نہیں کرنا چاہیے اور کسی شخص کے سامنے  ہاتھ نہیں پھیلانا چاہیے۔ روزہ ، انسان کو صاحب عزت بنا دیتا ہے اور صاحب عزت شخص اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہرگز ہر طرح کا راستہ اختیار نہین کرتا۔
روزہ خصوصاً گرم اور طولانی دنوں میں انسان کے لئے صبر اور پائداری کا باعث ہے اور تکلیف اور سختی کو برداشت کرنا آدمی کے لئے آسان ہوجاتا ہے۔ جلد تکلیف زدہ اور قوت ضبط کا کم ہونا، انسان کو لوگوں کے سامنے ہلکا اور بے قدر بنادیتا ہے اور اس روحانی کمزوری کی وجہ سے زندگی کے امتحانوں میں کامیاب نہیں ہوتا۔

روزہ کی باطن کی طہارت کا باعث
اس ضیافت الہی میں، تقوا، ریاضت اور نفسانی خواہشات و شیطانی شہوات سے مقابلہ کرنے کو مرکزیت حاصل ہے۔ اس مقابلہ کے فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ انسان گناہ نہ کرنے اور دل کی خواہشات سے "نہیں" کہنے کی جرئت حاصل کرلیتا ہے۔ اگر دل میں خیر، تقوا اور محبت الہی کا چراغ روشن ہوگیا تو انسان نور کے سرچشمہ تک پہنچ جائے گا اور ظلمت کے حجاب، نور اور روشنی میں بدل جائیں گے۔ اگر کوئی شخص نفسانی تاریک حجابوں کو اپنے وجود سے نہ چھڑا سکے اور اپنی نظروں کو عالم فطرت کے ذریعہ عالم ملکوت اعلی سے نہ ملا سکے تو اسفل السافلین میں جو کہ ظلمت کے حجابوں کا آخری درجہ ہے، پہنچے گا: " ثُمَّ ردَدْناهُ اَسْفَلَ السّافلین "[6] حالانکہ خداوند تبارک و تعالی نے انسان کو اعلی مقام میں خلق کیا ہے: " لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسانَ فی اَحْسَنِ تَقْویمٍ "۔[7]
ماہ رمضان کے ایک مہینہ کے روزوں کے نتیجہ میں شیطانی شہوتیں اور خواہشات کی حکومت، اپنی جگہ تقوا اور الہی تعلیمات کی حکومت کو دے دیتی ہے اور ہوا و ہوس اور خواہشات، انسان کے وجود میں نورانیت اور باطن کی روشنی میں بدل جاتی ہیں۔ باطن کی اس طہارت کے ساتھ، ماہ رمضان، معنوی دعوت ہے اور روزہ دار اللہ کا مہمان ہے۔
لہذا ہم سب کے لئے مناسب ہے کہ اس آسمانی ضیافت میں، اخلاقی اقدار کو پروان چڑھائیں اور عظیم اقدار کو مستحکم کریں۔ ماہ رمضان، مناجات اور دعا کا موسم ہے، تزکیہ، تہذیب اور تربیت کا زمانہ ہے، تحمل کرنے اور پروردگار کی طرف تقرب کے دن ہیں۔ خیال رکھنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سنہری گھڑی گزر جائے اور ہم ترقی نہ پاسکیں!

دل کا روزہ
حقیقی روزہ دار شہوتوں اور شیطانی خواہشات کی حکومت کی جگہ پر تقوا اور الہی تعلیمات کی حکومت کو نافذ کردیتا ہے، ایسی پاکیزگی کے تحت جو روزہ سے حاصل ہوئی ہے، روزہ دار نہ صرف اپنے منہ اور پیٹ کو کھانے اور پینے سے، بلکہ اپنے تمام اعضا کو ان چیزوں سے جنھیں اللہ نے حرام قرار دیا ہے، بچاتا ہے اور تقوا کی اس منزل تک پہنچنے کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے کہ حتی گناہ کی سونچ سے بھی دوری اختیار کرتا ہے اور یہ کیفیت روزہ کی نورانیت اور رحمت کی معراج ہے۔ اسی مرتبہ کے سلسلے میں حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "صیامُ الْقَلْبِ عَنِ الْفِکْرِ فی الآثامِ اَفْضَلُ مِنْ صیامِ الْبَطْنِ عَنِ الطَّعام"[8]، "گناہوں کی سونچ سے دل کا روزہ، پیٹ کو کھانے سے دور رکھنے سے افضل ہے"۔
اس بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ روزہ کے ظاہر یعنی کھانے پینے سے پرہیز کو چھوڑ دیا جائے، بلکہ اس پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے اور اس سے بڑھ کر کوشش کرنا چاہیے کہ روزہ کے معنوی فائدے کو بھی حاصل کیا جائے۔ البتہ یہی ظاہری پرہیز اور عام روزہ بھی روزہ داروں کے اندر کچھ حد تک روحانی انقلاب پیدا کرتا ہے اور ماہ رمضان میں معاشرہ میں تباہیاں کم ہوجاتی ہیں۔
نیز روزہ اور پرہیز اور پرہیزگاری سے حاصل کردہ پاکیزگی اس ڈھال کی طرح ہے جو روزہ دار کو عذاب الہی کی آگ سے بچاتی ہے۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "الصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النّار"[9]، روزہ، آگ کے سامنے ڈھال ہے"۔

نتیجہ یہ ہے کہ روزہ انسان کی روح کے لئے مختلف فائدوں کا حامل ہے، روزہ کو اللہ تعالی نے اپنے لیے قرار دیا ہے اور اس کا ثواب بھی اپنے ذمہ لیا ہے۔ روزہ عبادت کا دروازہ اور جہنم کی آگ کے سامنے ڈھال کا کردار ادا کرتا ہے، روزہ انسان کے ارادہ کی مضبوطی اور عزت نفس کے بڑھنے کا باعث ہے اور نیز ماہ رمضان اخلاقی برائیوں اور نفسانی خواہشوں کے ازالہ اور روح کی تزکیہ و تہذیب کا زمانہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سفينة البحار، ماده حدث۔
[2] محجة البيضاء، ج۲، ص۱۲۲۔
[3] ميزان الحكمه ، ج۶، ص۳۹۳، حدیث ۱۱۰۸۶۔
[4] مستدرک الوسائل، نوری، ج۷، ص۵۰۳۔
[5] ميزان الحكمه ، جلد ۳ ، صفحه ۴۸۷، حدیث ۵۲۹۴۔
[6] سورۂ تین، ۵۔
[7] سورۂ تین ۴۔
[8] غررالحکم، ج ۱، ص ۴۱۶،۶۳۔
[9] بحار الانوار، ج۴، ص۶۲۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 16 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 92