خلاصہ: بہت سارے جھگڑوں کو اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ ان کی جڑ، جھوٹ ہے۔
جب مثلاً کسی گھر کے اندر لڑائی جھگڑا ہوتا ہے، خاندان اور رشتہ داروں میں کسی موضوع پر کشمش ہوجاتی ہے، زمین کے بارے میں دو آدمیوں کا اختلاف ہوجاتا ہے، معاشرے میں فتنہ و فساد کھڑا ہوتا ہے اور ہر طرح کے دیگر اختلافات کو اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو ہوسکتا ہے ان میں سے بہت سارے تنازعات کی جڑ، جھوٹ ہو۔
اگر میاں بیوی ایک دوسرے سے سچائی اختیار کریں، کوئی ایسی بات یا ایسا کام نہ کریں جو ایک دوسرے کے لئے پریشانی کی بات ہو کہ اسے چھپانے کی ضرورت پڑے اور جب بات کھل جائے تو جھوٹ بول دے اور جب جھوٹ واضح ہوجائے تو میاں بیوی کا آپس میں جھگڑا شروع ہوجائے تو اس جھگڑے کی جڑ جھوٹ ہے۔ بنابریں ابتدا ہی سے خیال رکھنا چاہیے تھا کہ جھوٹ کا راستہ فراہم نہ ہو۔
اگر رشتہ لینے دینے میں دونوں گھر منگنی کے وقت صداقت اور سچائی کے ساتھ حقیقت کو واضح طور پر بیان کردیتے تو شادی کے بعد دلہا اور دلہن کے درمیان جھگڑا نہ ہوتا، شادی کا موضوع ایسا موضوع ہے جس میں جھوٹ اور دھوکہ جلد ہی فاش ہوجاتا ہے، لہذا اس جھگڑے کی جڑ، جھوٹ ہے۔
اگر کسی آدمی نے دوسرے آدمی کے حق میں نیکی کرنے کے لئے اسے اپنی زمین کچھ عرصہ کے لئے دیدی تو کچھ مدت استعمال کرنے کے بعد وہ آدمی اس زمین پر قابض ہوکر کہہ دیتا ہے کہ یہ میری ہی زمین ہے، اب مالک جب اپنی زمین اس سے واپس لینا چاہتا ہے تو وہ قابض جھوٹ کی بنیاد پر اس زمین پر قبضہ کیے ہوئے ہے۔
لہذا اگر دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق عمل کیا جائے تو نہ جھوٹ بولنے کی ضرورت پڑے گی اور نہ جھوٹ کے باعث لڑائی، جھگڑا اور فتنہ و فساد پڑے گا۔
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "النَّجاةُ مَع الصَّدقِ"، "نجات سچائی کے ساتھ ہے"۔ [غررالحکم، ص۴۷، ح۸۴۹]
۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[غررالحکم و دررالحکم، آمدی]
Add new comment