خلاصہ: خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے پنجتالیس مضمون تحریر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو ثواب اور عذاب رکھا ہے، اس سے مقصد یہ ہے کہ اپنے بندوں کو اپنے عذاب سے بچائے اور جنت بھیجے۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرمایا: "... ثُمَّ جَعَلَ الثَّوَابَ عَلَى طَاعَتِهِ، وَ وَضَعَ الْعِقَابَ عَلَى مَعْصِيَتِهِ، ذِيَادَةً لِعِبَادِهِ مِنْ نَقِمَتِهِ وَ حِيَاشَةً لهُمْ إِلَى جَنَّتِهِ"پھر اللہ نے ثواب کو اپنی اطاعت کے لئے قرار دیا، اور عذاب کو اپنی نافرمانی کے لئے رکھا، اپنے بندوں کو اپنی سزا سے بچانے کے لئے اور انہیں اپنی جنت کی طرف روانہ کرنے کے لئے"۔
اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو فضول پیدا نہیں کیا، ہر انسان کی تہذیب اس کے افکار و عقائد، اخلاق و مزاج اور عمل و کردار کے مطابق ہوتی ہے، اور انسان کا وجود اس کتاب کی طرح ہے جسے اس نے خود اپنے ہاتھوں سے اس دنیا میں لکھا ہے اور کل قیامت کے دن اسے ضرور پڑھنا پڑے گا۔ سورہ اسراء کی آیت 14 میں ارشاد الٰہی ہے: "اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيباً"، "(ہم حکم دیں گے کہ) اپنا نامۂ عمل پڑھ آج تو خود ہی اپنے حساب کے لئے کافی ہے"۔
بنابریں قیامت کے دن انسان اپنے سب اعمال کو اپنے نامہ عمل میں پائے گا اور اسی کے مطابق اسے ثواب اور عذاب ہوگا۔
اگر اللہ تعالیٰ کوئی واجب اور حرام قرار نہ دیتا اور ان کو بجالانے اور ترک کرنے پر کوئی ثواب و عذاب مقرر نہ کرتا تو اکثر لوگوں میں عمل کرنے کا جذبہ پیدا نہ ہوتا اور جذبہ نہ ہونے کی وجہ سے عبادت نہ کرتے، لہذا وہ اللہ تعالیٰ کی مزید رحمت کو حاصل کرنے کے لائق نہ بنتے۔ اسی لیے ثواب و عذاب مقرر کرنا خود ایسی رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوقات بڑھ چڑھ کر اس سے فیضیاب ہوں اور اس کی سزا اور عذاب سے بچ کر جنت میں جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[احتجاج، طبرسی]
[سحر سخن و اعجاز اندیشہ، محمد تقی خلجی]
[شرح خطبہ فدکیہ، آیت اللہ مصباح یزدی]
Add new comment