خلاصہ: خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے چالیسواں مضمون تحریر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ثواب کو اپنی اطاعت کے لئے اور عذاب کو اپنی نافرمانے کے بدلے میں مقرر کیا ہے، ثواب اور عذاب کا تقرر انسان کے ہی فائدہ کے لئے ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرمایا: "... ثُمَّ جَعَلَ الثَّوَابَ عَلَى طَاعَتِهِ، وَ وَضَعَ الْعِقَابَ عَلَى مَعْصِيَتِهِ"پھر اللہ نے ثواب کو اپنی اطاعت کے لئے قرار دیا، اور عذاب کو اپنی نافرمانی کے لئے رکھا"۔
ثواب اور عذاب قرار دینا، انسان کو مطلع کرنے کی صورت میں ہے تا کہ کسی کے پاس کوئی عذر و بہانہ نہ ہو اور قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق "البلاغ المبین" یعنی واضح طور پر پہنچنا چاہیے، کیونکہ واضح طور پر پہنچانے کا یہ نتیجہ ہے کہ عقلمند آدمی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق عمل کرتا ہے اور جس چیز سے اسے منع کیا گیا ہے، اس سے دوری اختیار کرتا ہے تا کہ عذاب الٰہی سے محفوظ ہوجائے اور دائمی ثواب تک پہنچ جائے۔
انسان ہر کام کو دو میں سے ایک مقصد سے انجام دیتا ہے:
یا فائدہ کو حاصل کرنے کے لئے یا خطرات کے خوف اور ان سے محفوظ رہنے کے لئے، جیسا کہ آدمی نفع حاصل کرنے کے لئے اور غربت سے بچنے کے لئے کاروبار کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اکثر لوگ مادی اور معنوی فائدہ حاصل کرنے کے لئے یا عذاب اور سزا سے ڈرتے ہوئے فرمانبردار اور قانون کے پابند بنتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور فرمانبرداری کے بدلے میں اجر مقرر فرمایا ہے جیسا کہ اپنی نافرمانی کے بدلے میں عادلانہ سزا مقرر کی ہے۔
لوگوں کے متعلق جتنے احکامِ الٰہی ہیں، لوگوں کی مصلحت اور نفع و نقصان کو مدنظر رکھتے ہوئے مقرر کیے گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[احتجاج، طبرسی]
[سحر سخن و اعجاز اندیشہ، محمد تقی خلجی]
Add new comment