خلاصہ: قرآن اور روایات میں دوسروں کے گناہ کو بیان کرنےکی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہماری دینی تعلیمات میں لوگوں کے گناہ کو بیان کرنے کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے، خداوند عالم لوگوں کی برائی کو بیان کرنے والوں کے لئے دنیا اور آخرت میں شدید اور دردناک عذاب کا وعدہ کررہا ہے: «اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَۃُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاللہُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ[سورہ نور، آیت:۱۹]جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ صاحبانِ ایمان میں بدکاری کا چرچا پھیل جائے ان کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور اللہ سب کچھ جانتا ہے صرف تم نہیں جانتے ہو»، اور معصومین(علیہم السلام) نے بھی اس بات کی شدت کے ساتھ مذمت کی ہے جیسا کہ امام محمد باقر(علیہ السلام) اس حدیث میں ارشاد فرمارہے ہیں: «یجِبُ لِلْمُؤْمِنِ عَلَی الْمُؤمِنِ انْ یستُرَ عَلَیهِ سَبْعینَ کبیرَةً، ہر مؤمن پر یہ واجب ہے کہ وہ دوسرے مؤمن کے ستر(۷۰) گناہ کو چھپائے»[بحار الانوار، ج ۷۱، ص۳۰۱]۔
البتہ یہاں پر گناہ کو چھپانہ یعنی امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کرنا نہیں ہے بلکہ تنھائی میں اس شخص یا گروہ کو اس کے گناہ کی طرف متوجہ کرنا ہے تاکہ وہ اپنے گناہ کی طرف متوجہ ہوں اور اس گناہ سے رک جائے اگر اس شخص یا گروہ کے گناہ لوگوں کے سامنے بیان کئے جائینگےتو ہو سکتا ہے کے وہ ضد میں آکر اس گناہ کو انجام دیں۔
*بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، دار إحياء التراث العربي، بیروت، ۱۴۰۳۔
Add new comment