خلاصہ: عدالت ایسی صفت ہے جو کسی انسان میں راسخ ہوجائے تو وہ ذرہ برابر بھی کسی سے نا انصافی نہیں کرسکتا ہے۔
ایک دن مالک اشتر نے امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی: ’’مولا ہم نے اہل کوفہ کے ذریعہ سے جنگ جمل فتح کی اور کوفہ و بصرہ کے لوگوں کو ساتھ ملا کر صفین میں شامیوں کو شکست دی۔ لوگ پہلے پہل آپ کی مساوی تقسیم سے راضی تھے لیکن میری نگاہیں اس وقت یہ دیکھ رہی ہیں کہ معاشرے کے بااثر افراد اس تقسیم پر راضی نہیں ہیں اور ان میں سے کچھ لوگ آپ کو چھوڑ کر معاویہ کے پاس چلے گئے ہیں۔ آپ اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہیں کہ دین اور حقیقت کے طلب کرنے والے افراد کم ہیں اور دنیا طلب لوگ زیادہ ہیں۔ اگر آپ بااثر شخصیات کو وظائف میں ترجیح دیں تو وہ آپ کی خیر خواہی کریں گے اور آپ کے مددگار بن کر آپ کے دشمنوں سے نبرد آزما ہوں گے۔
حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: مالک ہماری عدالت کی روش قرآن مجید کی اس آیت پر مبنی ہے: من عمل صالحا فلنفسہ و من اساء فعلیھا (ہود/۱۱۱)جس نے نیکی کی تو اپنے لئے کی اور جس نے برائی کی تو اس کا نقصان اسے ہی برداشت کرنا ہوگا۔
اس کے باوجود مجھے یہ خدشہ رہتا ہے کہ خدا نخواستہ مجھ سے ذرہ برابر انحراف نہ ہوجائے اور جہاں تک لوگوں کے پراگندہ ہونے کا سوال ہے تو خدا جانتا ہے کہ یہ لوگ اس لئے فرار نہیں کررہے ہیں کہ میں نے ان پر کوئی ظلم کیا ہے یا انہیں مجھ سے بہتر حاکم مل گیا ہے۔یہ لوگ فقط فانی دنیا کے طلب گار ہیں۔ یہ لوگ حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف جارہے ہیں اور قیامت کے دن ان سے پوچھا جائے گا کہ تم نے دین کے لئے کام کیا تھا یا دنیا کے لئے؟
جہاں تک بااثر افراد کو مال و دولت دے کر اپنے ساتھ ملانے کا سوال ہے تو میں کسی کا حق کبھی بھی دوسرے کو دینے پر آمادہ نہیں ہوں اور رشوت دے کر کسی کی نصرت کا طالب نہیں ہوں۔(کافی، ج۲، ص۹۰)
منبع و ماخذ:
(کافی، محمد بن یعقوب کلینی، انتشارات دار الحدیث، قم، ۱۴۲۹ھ۔ق، چاپ اول۔)
Add new comment