داعش حضرت علی (ع)کی نگاہ میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: داعش ایسا دہشتگرد گروہ ہے جو اسلام کی حقیقی تصویر کو مسخ کرنے اور مسلمانوں میں اختلاف پیدا کرنے کے لئے بنایا گیا ہے جسکی پیشنگوئی حضرت علی علیہ السلام نے چودہ سو سال پہلے کی تھی اور جس سے بچنے کا طریقہ بھی بتایا تھا-

داعش حضرت علی (ع)کی نگاہ میں

داعش کے معنی الفاظ کے اعتبار سے دولت اسلامیہ عراق و شام کے ہیں، یعنی اس گروہ کی ابتدا شام میں پیدا ہونے والے بحران کے بعد ہوئی کہ جہاں اس گروہ نے اپنے غیر ملکی آقائوں امریکا اور اسرائیل کے ایما پر بھرپور خدمات انجام دیں لیکن امریکی مدد اور اسرائیلی حمایت ہونے کے باوجود بھی یہ گروہ شام میں موجود شامی حکومت کو نقصان پہنچانے میں ناکام رہا۔ اس ناکامی کا انتقام لینے کا فیصلہ انھوں نے عراق میں خون خرابہ کرنے کے اعلان سے لیا اور پھر بالآخر عراق کے شمال میں جا پہنچے اور 12 جون 2014 کو ایک ہولناک خون کی ہولی کھیلی گئی جس میں سیکڑوں عراقی شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ اس دن سے اس دہشت گرد گروہ کا نام لوگوں کی زبانوں پر آنا شروع ہو گیا ہے، مختصرا یہ کہ اس گروہ کے لوگ پہلے القاعدہ میں شامل تھے، لیکن پھر اندرونی اختلافات کے بعد القاعدہ سے جدا ہوئے، شام میں جاری محاذ پر انھوں نے ایک اور تنظیم کی بنیاد رکھی جسے النصر فرنٹ کانام دیا گیا اور پھر بعد میں اس گروہ سے خود کو جدا کر کے ایک اور گروہ داعش نام رکھ لیا گیا۔
جی ہاں اسلام مخالف طاقتیں اسلام کو مختلف چیلنجوں سے دوچار کرنے کے لئے اسلام کے نام اور اسلامی تعلیمات کے احیاء کے بہانے مختلف گمراہ گروہوں کو اسلام کے روپ میں سامنے لے کر آئي ہیں اورانہیں مضبوط کیا ہے حالانکہ اب یہ بات سب پر واضح ہو رہی ہے کہ ان کے پیچھے عالمی استکباری قوتیں اپنا کھیل کھیل رہی ہیں اور موجودہ حقائق پراگر ہم غور کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ بیرونی مداخلت اور اسلام دشمن گروہوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے نتیجے میں اس وقت گمراہ مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں کا ہی خون بہانے میں مصروف ہے۔ اور داعش سے وابستہ اور پٹھو دہشت گرد اس قدر وحشی اور درندے ہیں کہ مقدس مقامات کی بے حرمتی، خواتین کی عزت لوٹنا، عام انسانوں کی قتل و غارت، مساجد اور کلیساوں کو جلانا، مسلمانوں کے املاک کی لوٹ مار اور اموال کی تخریب جیسے اقدامات ڈھٹائی کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔اور یہ تمام اقدامات وہ وحشیانہ جرائم ہیں جو جاہلیت کے دور کی یادیں تازہ کردیتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ چودہ سو سال پہلےمولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے ایسے گروہ کی صفات بیان کرتے ہوئے ان سے  ہوشیار رہنے اور ان سے دوری اختیار کرنے کو فرمایا تھا جو ظاہرا اسلام کا نعرہ تو لگا رہے ہوں گے مگر حقیقت میں وہ کافر و فاجر ہوں گے، چنانچہ آپ علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: “إذا رأيتم الرايات السود فالزموا الأرض ولا تحرکوا أيديکم ولا أرجلکم ثم يظهر قوم ضعفاء لا يُوبه لهم قلوبهم کزُبَر الحديد هم أصحاب الدولة لا يفون بعهد ولا ميثاق يدعون إلى الحق وليسوا من أهله “أسماؤهم الکنى ونسبتهم القرى” حتى يختلفوا فيما بينهم ثم يؤتي الله الحق من يشاء…”[1]
اگر زمانہ حاضر کو مد نظر رکھتے ہوئے اس حدیث کو دیکھا جائے تو اس کا مفہوم کچھ یوں ہے ’’اگر کسی زمانے میں تم شر پسند لوگوں کے ہاتھوں میں سیاہ پرچم دیکھو تو اپنے ہاتھ اور پیروں میں جنبش مت دینا(یعنی ان کی کسی طرح سے مدد مت کرنا)اسکے بعد کچھ ایسے ضیعف الایمان ظاہر ہوں گے کہ جن کا دل پتھر سے زیادہ سخت ہوگا(جن کے دل میں ذرہ بھی رحم نہ ہوگا) وہ اپنے وعدوں میں جھوٹے ہوں گے، ایسے لوگ، لوگوں کو حق کی طرف دعوت تو دیں گے درحالیکہ خود باطل پرست ہوں گے، ان کے نام، انکی کنیت شہروں سے منسوب ہوں گی تاکہ اپنے درمیان ایک امتیاز پیدا کرسکے، لیکن ان کی یہ دہشت گردی اور باطل جنگ ہمیشہ نہیں رہنے والی ایک نا ایک دن خدا اپنے حق کو سب پر ظاہر کردے گا اور وہ جس پر چاہتا ہے اپنے حق کو واضح اور روشن کردیتا ہے‘‘۔
اگر حدیث بالا پر غور کیاجائے تو داعش کی مندرجہ ذیل صفات ظاہر ہوتی ہے:
۱۔ سیاہ پرچم کے حامل ہوں گے۔

 ۲۔ ضعیف الایمان ہوں گے۔                     

۳۔ منافق ہوں گے، زبان پر حق اور دل میں باطل کو چھپائے ہوں گے۔          ۴۔ وہ وحشی ہوں گے،ان میں ذرہ بھی رحم و کرم نہ ہوگا۔           

۵۔  یہ لوگ اپنی کنیت اور شہری نسبت سے پہنچانے جائیں گے جیسے ابو بکر بغدادی وغیرہ وغیرہ۔
جیسا کہ اس کے علاوہ کئی مقالات میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے کہ داعش جیسے کالعدم گروہ کا اصل مقصد نشر اسلام نہیں ہے بلکہ حقیقی اسلام کی تصویر کو مسخ کرنا ہے، مسلمانوں میں اختلاف اور تفرقہ ڈالنا اورمسلمانوں کے وقار و منزلت کو کم کرنا ہے، اسی لئے حضرت علی علیہ السلام نے ایسے گروہ کی معرفی کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں سے بچنے کا طریقہ بھی بتایا ہے، آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ”وَ الْزَمُوا السَّوَادَ الْأَعْظَمَ فَإِنَّ يَدَ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ وَ إِيَّاكُمْ وَ الْفُرْقَةَ فَإِنَّ الشَّاذَّ مِنَ النَّاسِ لِلشَّيْطَانِ كَمَا أَنَّ الشَّاذَّ مِنَ الْغَنَمِ لِلذِّئْبِ أَلَا مَنْ دَعَا إِلَى هَذَا الشِّعَارِ فَاقْتُلُوهُ وَ لَوْ كَانَ تَحْتَ عِمَامَتِي[2]‏“  جماعت ایمانی کے ساتھ ہوجائو کہ اللہ کا ہاتھ اسی جماعت کے ساتھ ہے اور خبردار تفرقہ کی کوشش نہ کرنا کہ جو ایمانی جماعت سے کٹ جاتا ہے وہ اسی طرح شیطان کا شکار ہوجاتا ہے جس طرح گلہ سے الگ ہوجانے والی بھیڑ بھیڑیئے کی نذر ہوجاتی ہے۔ آگاہ ہوجائو کہ جو بھی اس انحراف کا نعرہ لگائے انہیں قتل کردو چاہے وہ میرے عمامہ کے نیچے کیوں نہ ہو۔
آپ علیہ السلام کے قول کی روشنی میں تمام مسلمانوں پر ضروری ہے کہ آپس میں متحد ہوجائیں اور مل کے داعش جیسے فتنہ کو کہ جو صفوف مسلمین میں رخنہ ڈالنے اور اسلام ناب کو بدنام کرنے کے لئے اٹھا ہے اسے نیست و نابود کردیں اس طریقہ سے کو پھر کوئی اور اسلام کے نام پر اس طرح کو گھناؤنی حرکت نہ کرے۔

 

....................................................................................................
حوالہ جات
[1] التشریف بالمنن فی التعریف بالفتن، ابن طاووس، على بن موسى‏، محقق / مصحح: مؤسسة صاحب الأمر؛ اصفهان: گلبهار، ناشر: مؤسسة صاحب الأمر( عجل الله تعالى فرجه الشريف)، قم، 1416ق، چاپ اول۔
[2] نہج البلاغہ، کلام ۱۲۷، ص۲۴۷، سید رضی، محمدبن ابی احمد حسین، مترجم: علامہ ذیشان حیدر جوادی، انتشارات انصاریان، قم ، چاپ چہارم، ۱۴۳۰ھ۔ق۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
11 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 48