عزتِ نفس اور خود اعتمادی امام علی(ع) کی نگاہ میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: کرامت و شرافت انسان کا سب سے بڑا اور قیمتی گوہر ہے جس کو زائل کرنے کا اختیار اسے نہیں دیا گیا ہے اور اس کے زائل کرنے پر بہت سخت تنبیہ کی گئی ہے۔ جوانوں سے امام علی کی ایک وصیت یہ ہے کہ وہ اپنے اندر عزتِ نفس اور بزرگواری کی روح کو پیدا کریں اور کبھی اسے اپنے اندر سے ختم نہ ہونے دیں۔ مقالۂ ھذا میں اسی صفت عزت نفس اور خود اعتمادی پر حضرت علی(علیہ السلام) کے اقوال کے زیر سایہ گفتگو کی گئی ہے۔

عزتِ نفس اور خود اعتمادی امام علی(ع) کی نگاہ میں

خود اعتمادی اور عزت نفس کے ایک ہی معنی ہیں۔ جسے انگریزی میں Self Confidence کہتے ہیں۔ یہ سماجی اور نفسیاتی مفہوم ہے۔ خود اعتمادی اس حالت کو کہتے ہیں جہاں فرد بھرپور اعتماد کی کیفیت و حالت میں رہتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی احساس ہے جو حالات پر منحصر رہتا ہے۔ اس کا ضد احساس کمتری کے قریب قریب ہے۔ خود اعتمادی کے لیے اہم عناصر 1۔ فیصلہ کرنے کی صلاحیت، 2۔ عمل کرنے کی صلاحیت اور 3۔ قوت۔
اللہ نے انسان کو جو پہلا امتیاز عطا فرمایا وہ کرامت و شرافت انسانی کا  امتیاز تھا۔ یہاں کرامت سے مراد اس لفظ کا اردو معنی نہیں ہے بلکہ اس کے عربی معنی مراد ہیں۔ عربی میں کرامت یعنی صاحب شرف، صاحب عزت اور صاحب عظمت و بزرگی ہونا۔
کریم یعنی بہت بزرگوار، بہت بڑی شخصیت اور بہت بڑے ظرف کا مالک انسان، صاحب کرامت وشرف انسان جس کے اندر ذرا بھی گھٹیاپن نہ ہو۔ خداوند تبارک وتعالیٰ نے انسان کو پیدا کیاا ور اسے یہ کرامت و شرف عطا فرمایا " ولقد کرّمنا بنی آدم [1]"
ہم نے بنی آدم کو اپنی بہت ساری مخلوقات پر کرامت، شرف وفضیلت عطا کی ہے اور ان میں صاحبان ایمان و بندگی کو دیگر انسانوں پر فوقیت و کرامت عطا کی ہے یعنی خدا شناس، خدا پرست بندگان خدا کو دیگر معمولی انسانوں پر برتری و شرف حاصل ہے۔
پس انسان، اشرف المخلوقات ہے اور مومن اشرف الشرفاء ہے۔ مومن کو شرفاء پر بھی کرامت و برتری حاصل ہے اور یہ برتری اسے خدا نے عطا کی ہے۔ اسلام و ایمان کی توفیق بھی اسے خدا نے ہی عطا کی ہے جس کی طرف آئمہ اطہار نے متعدد مقامات پر خصوصاً امام علی(علیہ السلام) نے اسکی طرف بڑے اہتمام کے ساتھ اشارہ فرمایا ہے۔
کرامت و شرافت، انسان کا سب سے بڑا اور قیمتی گوہر ہے جس کو زائل کرنے کا اختیار اسے نہیں دیا گیا ہے۔ اس کے زائل کرنے پر بہت سخت تنبیہ کی گئی ہے ۔ ممکن ہے ایک انسان اپنے دیگر حقوق کو زائل کر دے اور خدا اسے معاف کر دے لیکن اس نے اپنا گوہر کرامت و شرافت ضائع کر دیا تو خدا معاف نہیں کرے گا کیونکہ جس انسان میں یہ گوہر شرافتِ انسانی و کرامت الٰہی ختم ہوجائے یا ایک جامع جملہ میں کہا جائے کہ اس کی عزت نفس زائل ہوجائے تو اس انسان کے اندر ہر طرح کی گمراہی، رذیلت، پستی اور انحطاط و زوال پیدا ہوگا۔
جوانوں سے امام علی کی ایک وصیت یہ ہے کہ وہ اپنے اندر عزتِ نفس اور بزرگواری کی روح پیدا کریں۔ اس سلسلے میں آپ فرماتے ہیں :" أکرِم نَفسک عَن کُلِّ دَنیَّةٍ وَاِن ساقَتکَ اِلی الرَّغائب فَاِنَّک لَن تَعتاضَ بِما تَبذُلُ مِن نَفِسک عِوضاً ولا تکُن عبدَ غَیرک و قد جعلکَ اﷲ حُراً[2]"اپنے نفس کو ہر قسم کی کممائیگی اور پستی سے بلند رکھو، خواہ یہ پست و حقیر ہونا، تمہیں پسندیدہ اشیاء تک پہنچا ہی کیوں نہ دے۔ کیونکہ تم جو عزتِ نفس گنوائو گے اسکا کوئی بدل نہیں مل سکتا۔ اور خبردار! کسی کے غلام نہ بن جانا، 'اللہ نے تمہیں آزاد قرار دیا ہے۔

عزتِ نفس درجِ ذیل امورسے وابستہ ہوا کرتی ہے:
چنانچہ دو مقام پر آپ عزت نفس اور خود اعتمادی کے حصول کے لئے چند چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔ "مَن کَرُمَت علیہ نَفسُہُ لَم یُھِھا بِالْمعصِیَة"  [3]دوسرے مقام پر ارشاد فرماتے ہیں۔" أزریٰ بِنَفْسِہِ مَنِ اسْتَشْعَرَا الطَّمَعَ، وَرَضِیَ بِالذُّلِّ مَنْ کَشَفَ عَنْ ضُرِّہِ، وَہَانَتْ عَلَیْہِ نَفْسُہُ مَنْ أمَّرَ عَلَیْھا لِسَانَہ[4]ُ۔ 
جوشخص اپنی عزتِ نفس کا قائل ہو، وہ ارتکابِ گناہ کے ذریعے اسے پست اور حقیر نہیں کرتا۔
جس شخص نے اپنے اندر طمع و لالچ پیدا کر لی یا اس کو اپنے اوپر مسلط کر لیا اور طمع کو اپنا شعار بنا لیا، اس نے اپنے نفس کو معیوب بنا لیا ہے۔
اور جس نے اپنی مشکلات کو دوسروں کے سامنے بیان کیا، اس نے اپنے آپ کو ذلیل کیا اور اپنی ذلت پر راضی ہوا۔
اور جس شخص نے اپنے اوپر اپنی زبان کو مسلط کر لیا اور زبان کو اپنا امیر و حاکم بنا لیا، اس نے اپنی توہین کی اور اپنے آپ کو رسوا، گھٹیا و پست قرار دیا۔
ان دو حکمتوں میں امیرالمومنین(علیہ السلام) نےچار چیزوں کی طرف اشارہ کیا ہے اور ان کا ایک اثر ذکر فرمایا ہے۔ ایک گناہوں کا ارتکاب، دوسرےطمع، تیسرے شکوہ و شکایت اور اپنی مشکلات و مصائب اپنے جیسے دوسرے لوگوں کے سامنے بیان کرنا، چوتھے، پُر حرفی، پُرگوئی اور بہت باتیں کرنا، یعنی زبان کو اپنے اوپر مسلط کر لینا۔
حضرت امیر المومنینؑ نے ان چاروں چیزوں کا ایک اثر بیان فرمایا ہے اور وہ ہے ذلت ِنفس،پستی اور توہین نفس۔ ان چاروں چیزوں سے انسان کا نفس پست ہو جاتا ہے۔ امیر المومنینؑ نے ان چاروں چیزوں کو بعنوان نمونہ بیان کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ نفس کو پست و گھٹیا کرنے والے امور فقط انہیں چار چیزوں میں منحصر ہیں۔
مطالب مذکورہ اور احادیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خداوند قدوس نے ہر چیز، انسان کے اختیار می دی ہے، اسکے باوجود خدا نے انسان کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے ذلیل کرے اور اپنی عزت نفس کو پامال کرے، اس بارے میں کافی ہدایات امام علی (علیہ السلام)کے اقوال سے ملتی ہیں جنھیں اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔ عزت نفس کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ انسان کے اندر یہ چند چیزیں موجود ہوں 1۔ گناہ سے پرہیز، 2۔ جذبۂ بے نیازی، 3۔دوسروں سے گلہ و شکوہ نہ کرنا، 4۔ ذلت آمیز گفتار اور کردار سے پرہیز۔

 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]  اسرأء/70۔
[2]  بحار الانوار ج74، ص227، محمد باقر بن محمد تقى بن مقصود على مجلسى‏، انتشارات مؤسسة الوفاء بيروت - لبنان‏، 1404 قمرى۔ نہج البلاغہ۔مکتوب٣١۔
[3]  مستدرک الوسائل، ج11، ص339، ميرزا حسين نورى‏،انتشارات مؤسسه آل البيت لإحياء التراث، قم ، چاپ اول، 1408 هجرى‏۔
[4]  نہج البلاغہ، ص469۔ سید رضی، انتشارات دار الهجره، قم‏، بی تا، نسخه صبحى صالح‏۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 9 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 60