اہمیت اتحاد حضرت علی (ع) کی نگاہ میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

کسی بھی قوم وملت کے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے سب سے ضروری اور اہم چیز، ان کی صفوں میں اتحاد و اتفاق کا پایا جانا ہے۔ اتحاد ایک زبردست طاقت و قوت اور ایسا ہتھیار ہے کہ اگر تمام مسلمان متحد ومتفق ہوجائیں تو کوئی دوسری قوم مسلمانوں سے مقابلہ تودورکی بات آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتی۔ یہی وجہ ہے جو ہمارے تمام ائمہ نے اسکی تاکید کی ہے جسکی بارز مثال مولائے کائنات کی زندگی ہے۔

اہمیت اتحاد حضرت علی (ع) کی نگاہ میں

سیاست کے بازار میں تقریبا یہ فیشن بن چکا ہے کہ وہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں، ان کی کارکردگی حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنے پہلے کچھ ہوتی ہے اور حاکم بن نے کے بعد کچھ، انداز گفتگو عوام کے درمیان کچھ ہوتا ہے اور اپنی پارٹی کے درمیان کچھ، ایسے سیاسی افراد کی زندگی میں تضاد ہی تضادنظر آتا ہے کیونکہ ان کا اصل ہدف حکومت کرنا ہوتا ہے۔۔۔عوام پر حکومت۔۔۔۔اب چاہے جیسے ہو ان کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے چاہے اس کے لئے جھوٹ بولنا پڑے، فساد کروانا پڑے، عوام کی مصیبتوں پر مگرمچ کے آنسو بہانا پڑے، ریا کاری کرنا پڑے یہاں تک کہ عوام کا خون بھی کیوں نا بہانا پڑے ان کے لئے کوئی چیز معنا نہیں رکھتی۔
مگر تاریخ اسلام نے اپنے آغوش میں ایسے افراد کو بھی پروان چڑھایا ہے جن کا اصل ہدف حکومت کرنا نہیں تھا بلکہ عوام کو کمال مطلوب الہی تک پہونچانا تھا، یہ وہ افراد ہیں جو ہمیشہ اللہ کی مصلحت اور اسکی مرضی کے مطابق کام کرتے ہیں، اب چاہے اس رضایت کے لئے اپنے برادر ایمانی کو قتل ہوتا دیکھنا پڑے یا کسی ظالم کو قتل کرنے سے صرف نظر کرنا پڑے، اپنے ناموس پر ظلم ہوتا دیکھنا پڑے یا دربار میں حاکموں کی مدد کرنا پڑے ، اپنے بچوں کو فاقہ کرتے دیکھنا پڑے یا درباری حاکموں کو مرغن غذا کھاتے دیکھنا پڑے ان کے لئے رضایت پروردگار کے مقابل کوئی چیز معنا نہیں رکھتی کیوں کہ ایسے افراد کا اصل ہدف رضایت خداوندی ہوتا ہے اور ہدف پروردگار لوگوں کو کمال تک پہونچانا ہے۔
انہیں افراد میں ایک علی علیہ السلام تھے جنھوں نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو برقرار رکھنے کے لئے نہ صرف زبان کا سہارا لیا بلکہ اپنی پوری زندگی میں اسے عملی جامہ پہناکر بھی بتایا ہے، یہ حکومت لینے کے لئے کوئی دیکھاوا نہیں تھا بلکہ بقاء اسلام کی ضرورت تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ علی علیہ السلام  کا اصل ہدف لوگوں میں شریعت محمدی کو نشر کرنا تھا اور اس کے ذریعہ لوگوں کو اس کمال تک پہنچانا تھا کہ جس کا خواہاں خدا بھی تھا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی، چنانچہ مقالہ ھذا میں حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے ان بعض نکات کی طرف اشارہ کیا جارہاہے جس میں آپ نے بنفس نفیس اسلامی اتحاد کا اہتمام کیا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔
الف: واقعہ سقیفہ کے بعد ابوسفیان امام علی علیہ السلام کی حمایت کے بہانے مسلمین کے درمیان فتنہ برپا کرنا چاہ رہا تھا کہ امام عالی مقام نے اسکے جواب میں فرمایا: ایھا الناس فتنوں کی موجوں کو نجات کی کشتیوں سے چیر کر نکل جائو اور منافرت کے راستوں سے الگ رہو، باہمی فخر و مباہات کے تاج کو اتاردو کہ کامیابی اسی کا حصہ ہے جو اٹھے تو بال و پر کے ساتھ اٹھے ورنہ کرسی کو دوسروں کے حوالے کرکے اپنے کو آزاد کرلے۔ یہ پانی بڑا گندہ ہے اور اس لقمہ میں اچھولگ جانے کا خطرہ ہے اور یاد رکھو کہ نا وقت پھل چننے والا ایسا ہی ہے جیسے نامناسب زمین میں زراعت کرنے والا۔[۱]
ب: جس وقت چھ افراد پر مشتمل شوری میں عبد الرحمن بن عوف کی جانب سے عثمان خلیفہ نامزد ہوگئے تو آپ نے احتجاجا فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ خلافت کا حقدار ہوں اور خدا گواہ ہے کہ میں اس وقت تک حالات کا ساتھ دیتا رہوں گا جب تک مسلمانوں کے مسائل ٹھیک رہیں اور ظلم صرف میری ذات تک محدود رہے تاکہ میں اس کا اجرو ثواب حاصل کرسکوں۔[۲]
ج: جب جناب مالک اشتر مصر کے گورنر منتخب ہوگئے تو آپ نے مصر کے لوگوں کے لئے ایک خط لکھا جس میں صدر اسلام کا وہ ظلم جو آپ کی ذات پر ہوا تھا نقل فرماتے ہیں: میں نے  اچانک یہ دیکھا کہ لوگ فلاں شخص کی بیعت کے لئے ٹوٹے پڑرہے ہیں تو میں نے اپنے ہاتھ کو روک لیا یہاں تک کہ یہ دیکھا کہ لوگ دین اسلام سے واپس جارہے ہیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قانون کو برباد کررہے ہیں تو مجھے یہ خوف پیدا ہوگیا کہ اگر اس رخنہ اور بربادی کو دیکھنے کے بعد بھی اسلام اور مسلمانوں کی مدد نہ کی تو اسکی مصیبت روز قیامت اس سے زیادہ عظیم ہوگی جو آج حکومت کے چلے جانے سے سامنے آرہی ہے۔[۳]
نکات بالا کو مد نظر رکھتے ہوئے نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان اگر واقعا مومن ہے وہ اپنی زندگی میں امیر المومنین کی زندگی کو اپنانمونہ عمل بنائے ، حضرت علی علیہ السلام نے اس زمانے میں زندگی بسر کی جب دین اور مسلمان خطرہ میں تھا، دوسری طرف آپ کی شجاعت کا چرچہ بھی پورے عرب میں زبان  زد عام و خاص تھا مگر اسکے باوجود آپ نے جنگ و جدال کو صرف نظر کرتے ہوئے لوگوں کے ساتھ مصلحتا مل کر اور اتحاد کو برقرار رکھتے ہوئے کام کیا تاکہ تمام مسلمان  اصل ہدف تک پہونچ سکے اور وہ  اصل ہدف سوائے کمال انسانی کے کچھ نہیں تھا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اسی وقت کمال مطلوب تک پہونچ سکتا ہے جب مسلمانوں میں آپ میں اتحاد و یکجہتی ہو ورنہ دشمن ان پر غالب آجائیں گے اور اس طرح مسلمان اپنا رعب و دبدبہ کھو دیں گے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[۱]  نہج البلاغہ،خطبہ ۵، ص۴۵، سید رضی، محمدبن ابی احمد حسین، مترجم: علامہ ذیشان حیدر جوادی، انتشارات انصاریان، قم ، چاپ چہارم، ۱۴۳۰ھ۔ق۔
[۲]  نہج البلاغہ، خطبہ۷۴، ص۱۲۵، سید رضی، محمدبن ابی احمد حسین، مترجم: علامہ ذیشان حیدر جوادی، انتشارات انصاریان، قم ، چاپ چہارم، ۱۴۳۰ھ۔ق۔
[۳]  نہج البلاغہ، خطبہ۶۲، ص۶۰۵، سید رضی، محمدبن ابی احمد حسین، مترجم: علامہ ذیشان حیدر جوادی، انتشارات انصاریان، قم ، چاپ چہارم، ۱۴۳۰ھ۔ق۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 63