خلاصہ: انسان جب کوشش و محنت کرتا ہے تو اس محنت کے ذریعہ کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس حاصل کردہ چیز کو اپنی زندگی میں استعمال کرتا ہے، جیسے پیسہ۔ کیونکہ اسے یقین ہے کہ میں اگر محنت نہ کروں تو اپنی خوراک مہیا نہیں کرسکوں گا، اسی سوچ کی بنیاد پر انسان کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جیسے یہاں دنیا میں محنت سے کمائی کرکے انسان کھانے پینے کے اسباب فراہم کرتا ہے اسی طرح اسے آخرت کی ہمیشہ والی زندگی کے لئے بھی نیک اعمال بجالانے چاہئیں، کیونکہ وہاں تو انسان کے لئے اس کا ایمان اور نیک اعمال ہی ہیں جو اس کی آخرت کو سنوار سکتے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسان جہاں رہنا ضروری سمجھتا ہو، وہاں رہنے کے اسباب کو مہیا کرنے کے لئے کوشش کرتا ہے اور اگر وہاں کے اسباب کو فراہم کرنے کے لئے جدوجہد نہ کررہا ہو تو معلوم ہوجائے گا کہ وہ اس جگہ جانے یا رہنے کو اہمیت نہیں دے رہا اور جس جگہ جا کر رہنا یقینی ہو، لیکن وہاں کے اسباب کو فراہم کرنے کے لئے محنت نہیں کررہا تو واضح ہوجائے گا کہ وہ شخص اس جگہ جانے پر یقین ہی نہیں رکھتا، بلکہ جہاں اب رہتا ہے اسی جگہ کو ہمیشہ کا ٹھکانہ سمجھ رہا ہے۔ یہی دنیا و آخرت کی مثال ہے۔ حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "العَجَبُ كلُّ العَجَبِ لِمَن عَمِلَ لِدارِ الفَناءِ و تَرَكَ دارَ البَقاءِ"، "سارا تعجب ہے اس شخص سے جس نے فانی گھر کے لئے عمل کیا اور باقی گھر کو چھوڑیا"۔ (میزان الحکمہ، ج7، ص64)۔
انسان دنیا کے لئے اس لیے محنت کرتا ہے کہ اس میں رہائش پذیر ہے اور ادھر سے یہ بھی دیکھتا ہے کہ لوگوں کو موت آتی ہے اور وہ دنیا کو چھوڑ کر جارہے ہیں، کدھر جارہے ہیں؟ دائمی اور ہمیشگی ٹھکانہ میں، تو اسے چاہیے کہ اس باقی رہنے والے گھر کے لئے بھی محنت کرے، کیونکہ جس بنیاد پر دنیا کے لئے محنت کررہا ہے، اسی بنیاد پر آخرت کے لئے بھی محنت کی ضرورت ہے، وہ بنیاد، "رہائش" ہے۔ اسے دنیا کی چند سالہ زندگی کے بعد آخرت میں ہمیشہ اور تاابد رہنا ہے، تو وہاں کے لئےمحنت اور جدوجہد کیوں نہیں کرتا؟ یہ تعجب کی بات ہے۔
دنیا میں بھی انسان ایک کیفیت میں ٹھہرا ہوا نہیں ہے، بلکہ اپنی زندگی کے مختلف مراحل طے کررہا ہے، جوانی میں جوانی کا سوچتا ہے،ابھی جوانی سے بہترین لذات کا سامان فراہم کررہا ہوتا ہے کہ اس کا بدن بڑھاپے کی طرف رُخ کرنا شروع کردیتا ہے۔ جیسے جوانی میں اپنے ماضی کو دیکھے تو اسے ماضی کا وقت بالکل کم سا وقت دکھائی دے گا اسی طرح جب بڑھاپے میں پہنچ جائے تو اسے اپنی ساری گزری ہوئی زندگی تھوڑا سا وقت معلوم ہوگا، تو تب اس بات کو سمجھے گا کہ یہ دنیا تو مجھے مسلسل فنا کی طرف لے جارہی تھی، ہاں لذات کا عروج جوانی میں تھا، مگر اب تو جوانی نہ رہی، رفتہ رفتہ جسمانی طاقتیں کھوگئیں، سب طاقتوں کو دنیا کے حصول پر لگا دیا، اب ایسا وقت آگیا کہ نہ وہ طاقتیں باقی ہیں اور نہ ان طاقتوں کے ذریعہ حاصل کیا ہوا مال و دولت اور لذت و سکون۔دوسری طرف سے آخرت درپیش ہے جو کبھی بھی موت کے آنے کے ساتھ ہمیشہ اور دائمی طور پر اس میں انتقال دیدیا جائے گا، مگر اب طاقتوں کے کھوجانے کے بعد اس باقی اور ابدی گھر کے لئے سامان اور زادِراہ تو فراہم ہی نہیں کیا۔
جہاں تھوڑا وقت رہنا تھا اس پر اپنی پوری طاقتیں لگا دیں اور جہاں ہمیشہ رہنا ہے اس کے لئے کچھ سوچا تک نہیں اور جب کسی نے آخرت یاد دلائی تو فوراً بات کو بدل دیا اور آخرت کو فراموش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) جیسے طویل زندگی کرنے والے نبی کے لئے دنیا کی زندگی دھوپ سے سایہ میں جانے کی دیر کے برابر تھی، تو ہماری زندگی کی مثال کیا ہونی چاہیے؟!بنابریں اُس ابدی زندگی کے لئے سرمایہ اور زادِ راہ بھی بہت سارا چاہیے۔
حوالہ:
[میزان الحکمہ، محمد محمدی ری شہری]
Add new comment