خلاصہ: خداوند متعال نے اس دنیا کو آزمایش کے لئے خلق کیا ہے جو بھی اس دنیا میں اس کی آزمایشوں میں کامیاب ہوگا اس کو آخرت میں نعمتوں سے نوازا جائیگا، اور آزمایش کبھی مال و ثروت کے ذریعہ کی جاتی ہے اور کبھی تنگ دستی کے ذریعہ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خداوند متعال نے انسان کو پیدا کیا تا کہ کچھ عرصہ اس دنیا میں گذارے اور اس کے بعد اس کے ایسی جگہ بھیجے جہاں پر اسے ہمیشہ رہنا ہے، ہماری عقل ہمیں یہ حکم دیتی ہے کہ جہاں ہمیں ہمیشہ رہنا ہے اس کے لئے زاد و توشہ آمادہ رکھنا چاہئے، حدیث کے مطابق دنیا کو آخرت کے لئے کھیتی کہا گیا ہے[۱]، مؤمن وہی ہے جو اس دنیا میں ایسے کاموں کو انجام دیں جو اس کو آخرت میں جہاں اسے ہمیشہ رہنا ہے کام آئے اور اس دنیا کو ایک گذر گاہ سمجھے جہاں اسے اپنی ابدی حیات کی تیاری کرنا ہے، اب چاہے اس کی یہ دنیا فقر و تنگدستی میں گذرے یا عیش و آرا م میں۔
اسلام کے نقطہٴ نظر سے ایسی فکر عاقلانہ ہے اور وہ انسان زیرک جو ایسی فکر رکھتا ہے کیونکہ وہ ایک مقصد کے بارے میں سوچتا ہے اور دنیا کے محدود عالم کے بجائے آخرت کے ابدی اور لا محدود عالم پر نظر رکھتا ہے، دنیا کی عارضی لذتوں کو آخرت کی ابدی نعمتوں سے موزانہ کر کے عقلمندی کے ساتھ دوسرے مورد کو ترجیح دیتا ہے۔
تنگ نظر لوگ عارضی اور ناپائدار لذتوں کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچتے اور انہیں آخرت کی ابدی لذتوں پر ترجیح دیتے ہیں، ایسے لوگ اپنی عقل کی باگ ڈور کو ہوائے نفس کے حوالے کر کے اپنے آپ کو شکم و شہوت کا تابع قرار دیتے ہیں، ایسے افراد کے بارے میں مولائے متقیان حضرت علی(علیہ السلام) فرماتے ہیں: « كَمْ مِنْ عَقْلٍ أَسِيرٍ عِنْدَ هَوًى أَمِير[۲] کتنے ہی لوگوں کی عقل ہوائے نفسانی کی اسیر ہوتی ہے اور ان کے نفسانی خواہشات عقل پر حکمرانی کرتی ہیں».
پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور اہل بیت(علیہم السلام) جو مختلف مواقع پر لوگوں کو دنیا سے دوری اختیار کرنے کے سلسلہ میں نصیحت فرماتے تھے اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اس دنیا میں کوئی کام نہ کیا جائے، نہیں بلکہ اس کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ دنیاوی چمک دمک سے پرہیز کیا جائے اور دنیا کو آخرت کے لئے وسیلہ قرار دینا ہے، اس صورت میں انسان کی تمام کوششیں حتی مال و دولت جمع کرنا بھی آخرت کے لئے قرار پائے گا، کیونکہ آخرت اور دنیا کا دارومدار انسان کے محرک اور مقصد پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ازدواج کرنے میں انسان کا مقصد صرف شہوت ہو، تویہ دنیا کو طلب کرنا ہے وہ صرف شہوت کے بارے میں سوچتا ہے لیکن کبھی ازدواج میں اس کا منشا حکم خدا کی اطاعت ہے۔ چونکہ خدائے متعال چاہتا ہے کہ وہ خانوادے کو تشکیل دے ورنہ ایسا نہیں کرتا، اگر چہ اس کے لئے اس میں کافی لذت بھی ہوتی ہے وہ خدا کے لئے اس کام کو انجام دیتا ہے حتی اگر اسے ہزاروں مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑے۔
حقیقت میں دنیا امتحان کا وسیلہ ہے اب چاہے انسان کے لئے اس دنیا میں مال و دولت فراہم ہو یا وہ اس سے محرورم رہے دونوں میں خدا کی طرف سے اس کے لئے آزمائش ہے نہ دنیا سے بہرہمند ہونا کرامت وسر بلندی کی علامت ہے نہ ہی فقرو تنگدستی ذلت وخواری کی نشانی ہے، چونکہ دنیا خدا کے نزدیک ناچیز ہے اسی لئے کافر کو اس سے محروم نہیں کرتا، اس کے برعکس جنت اور اس کی نعمتیں خدا کے نزدیک قدر و قیمت رکھتی ہیں اسی لئے ان سے کافر کو محروم کرتا ہے: «وَنَادیٰ اٴَصْحَابُ النَّارِ اَصْحَابَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِیضُوا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْمِمَّا رَزَقَکُمُ اللهُ قَالُوا اِنَّ اللهَ حَرَّمَھُمَا عَلَی الْکَافِرِینَ[سورۂ اعراف، آیت: ۵۰] اور جہنم والے جنت والوں سے پکار کر کہیں گے کہ ذرا ٹھنڈا پانی یا خدا نے جو رزق تمہیں دیا ہے اس میں سے ہمیں بھی پہنچاؤ تو وہ لوگ جواب دیںگے کہ ان چیزوں کو اللہ نے کافروں پر حرام کر دیا ہے»، جنت اور اس کی نعتوں کی اتنی قدرو منزلت ہے کہ کافر ان کی لیاقت نہیں رکھتے اس کے برعکس دنیا کی خدا کے نزدیک کوئی قیمت نہیں ہے، اسی لئے کافر بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں۔
جس کے بارے میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)، جناب ابوذر سے اس طرح فرمارہے ہیں:« یَا اَبَاذَّرٍ؛ وَالَّذٖی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَوْ اَنَّ الدُّنْیٰا کٰانَتْ تَعْدِلُ عِنْدَ اللهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ اَوْ ذُبَابٍ مَا سَقَی الْکَافِرَ مِنْھَا شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ[۳] اے ابوذر! اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، اگر خدا کے نزدیک دنیا کی قدر و قیمت ایک مچھر یا مکھی کے پر کے برابر ہوتی تو کافر کو ایک بار بھی پانی نہ پلاتا».
نتیجه:
جومشاہدہ کیا جاتا ہے کہ مسلمان اور کافر یکساں طور پر دنیا کی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں وہ اس امر کی علامت ہے کہ دنیا کی ذاتی طور پر کوئی قدرو قیمت نہیں ہے بلکہ یہ ایک آزمائش کا وسیلہ ہے.
_______________________
حوالے:
[۱] بحار الانوار، محمد باقر بن محمد تقى مجلسى، ج۱۰۷، ص۱۰۹، دار إحياء التراث العربي، بیروت، دوسرے چاپ،۱۴۰۳.
[۲] عيون الحكم و المواعظ (لليثي)، على بن محمد، ص۲۸۱، دار الحديث - قم، ۱۳۷۶ش.
[۳] بحار الانوار، ج۷۴، ص۸۰.
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)، دنیا کے ناچیز ہونے اور اس کی مذمت میں فرماتے ہیں: « یَا اَبَاذَّرٍ؛ وَالَّذٖی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَوْ اَنَّ الدُّنْیٰا کٰانَتْ تَعْدِلُ عِنْدَ اللهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ اَوْ ذُبَابٍ مَا سَقَی الْکَافِرَ مِنْھَا شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ[۱] اے ابوذر! اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، اگر خدا کے نزدیک دنیا کی قدر و قیمت ایک مچھر یا مکھی کے پر کے برابر ہوتی تو کافر کو ایک بار بھی پانی نہ پلاتا»(بحار الانوار، ج۷۴، ص۸۰).
رسول خدا( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )، اس دنیا کی حقیقیت کو سمجھانے کے لئے قسم کھاتے ہوئے فرمارہے ہیں کہ اگر دنیا خدا کے نزدیک قدر و منزلت رکھتی تو خدا کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہیں پلاتا۔ اگر سمندروں اور دریاؤں کی خدا کے نزدیک قدر ہوتی، تو کافروں کو اس سے بہرہ مند نہ کرتا بلکہ صرف اولیاء الہٰی کو ان سے مستفید فرماتا یہ جومشاہدہ کیا جاتا ہے کہ مسلمان اور کافر یکساں طور پر دنیا کی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں وہ اس امر کی علامت ہے کہ دنیا کی ذاتی طور پر کوئی قدرو قیمت نہیں ہے بلکہ یہ ایک آزمائش کا وسیلہ ہے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحار الانوار، محمد باقر بن محمد تقى مجلسى، دار إحياء التراث العربي، بیروت، دوسرے چاپ،۱۴۰۳.
Add new comment