خلاصہ: جود و سخاوت تمام انسانوں کے اندر فطری طور پر پائی جاتی ہے اور ہر فطری فضيلت کو انسان کی ذات ميں اجاگر کرنے کے لئے حضرت آدمٴ سے لے کر نبی خاتم اور پھر ائمہ معصومين نے بہت کوششيں کيں۔
جود و سخا کے بارے ميں معصومين کے اقوال کثرت سے ملتے ہيں اور انھوں نے عملی طور پر بھی سخاوت کے ايسے نمونے پيش کئے کہ اگر انسانيت اس فضيلت کی معراج کو ديکھنا چاہے تو اس کو مشکل نہيں ہوگی۔
اسامہ بن زيد نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے منہ بولے بيٹے تھے اور آپکے بااعتماد ساتھيوں ميں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ليکن حضور کی وفات کے بعد انہوں نے اہلبيت عليہم السلام کی کماحقہ حمايت نہ کی اور امير المومنين کی خلافت کے دوران ہونے والی جنگوں ميں بھی حمايت کی اور نہ مخالفت۔ ايسے پُرآشوب ماحول ميں بھی جب وہ مريض ہوتے ہيں تو امام حسين علیہ السلام ان کی عيادت کو جاتے ہيں۔ اسامہ نے آپٴ کے سامنے سخت پريشانی کا اظہار کيا۔ امام عليہ السلام نے وجہ پوچھی تو بتايا کہ ميں چھ ہزار درہم کا مقروض ہوں۔
امام حسين نے اسے تسلی دی کہ ميں تمہارا قرض اتار دوں گا۔ ليکن اسامہ کي پريشانی دور نہ ہوئی اور انہوں نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ قرض کی ادائيگی سے پہلے ميری موت نہ واقع ہو جائے۔
چنانچہ امام نے فرمايا کہ اس سے پہلے کہ تيری موت واقع ہو، ميں تيرا قرض اتار دوں گا۔ پھر امام حسين نے اسامہ کی موت سے پہلے اس کا قرض ادا کرديا۔[بحار،ج۲ص۲۰۳]
ماخذ: مجلسی، بحار الانوار، ج۲ ص۲۰۳
Add new comment