خلاصہ: اس مضمون میں امام علی رضا علیہ السلام کی سخاوت کے پہلو کو مختصر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
سخاوت، اچھے اخلاق میں سے ایک اہم خصلت ہے جس کے بارے میں روایات میں بہت گفتگو ہوئی ہے اور لوگوں کو اس محبوب خصلت کو اپنانے کی تاکید بھی کی گئی ہے اور اس کے برخلاف بخل اور کنجوسی کی مذمت ہوئی ہے اور اس سے بچنے کو کہا گیا ہے۔سخاوت، انسان کے قلب کے وسیع ہونے کی نشانی ہونے کے ساتھ ساتھ خدا پر توکل اور بھروسہ کی اہم علامت بھی ہے اور بخل و کنجوسی، تنگدلی کے ساتھ ساتھ ایمان کی کمزوری کو بیان کرتے ہیں کیونکہ انسان، سخاوت اور عطا کرنے کی منزل میں اسی وقت پہونچ سکتا ہے جب اسے یقین ہوگا کہ جس ذات نے اس وقت اسے اس نعمت سے نوازا ہے وہ ذات بعد میں بھی اس کی پشت پناہ ہے لیکن کنجوس اور بخیل انسان اپنے مال کے کم ہوجانے کی کشمکش میں پڑا رہ جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کرتا ہے کہ نہ تو وہ خود، خدا کی نعمتوں سے فائدہ حاصل کر پاتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کو فائدہ حاصل کرنے کا موقع دیتا ہے۔
سخاوت، ائمہ معصومین(علیہم السلام) کے پسندیدہ اخلاق میں سے ہے اور ان کے رویہ اور کردار کا محبوب عمل بھی۔ یہی وجہ ہے جو ہمارے معصومین(ع) اپنے زمانے کے سب سے زیادہ کریم اور سخی ہوا کرتے تھے اور یہ حضرات ایسے سخی تھے کہ جن کی سخاوت کی نظیر کسی زمانے میں نظر نہیں آتی۔انھیں حضرات(ع) میں سے ایک امام علی رضا علیہ السلام ہیں جو اپنی مہربانیوں کی وجہ سے امام رئوف کے عنوان سے معروف تھے۔
آپؑ، کرامت، سخاوت اور عطا کرنے میں بے نظیر تھے۔ بے رحم حکام کی متاثر اور محتاج رعایا کی مدد کو آپؑ اپنا اہم وظیفہ شمار کرتے تھے اور آیت شریفہ«وفی امولهم حق معلوم للسائل و المحروم»’’اور ان کے اموال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محروم افراد کے لئے ایک حق تھا‘‘ (ذاریات/19) کی بنا پر، غریبوں اور ضرورتمنوں کی حاجت روائی کو اپنے لئے واجب سمجھتے تھے اور بزنطی سے گفتگو کے دوران اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
نعمت رکھنے والا، عظیم امتحان کی حالت میں ہے کیونکہ خداوند عالم نے اپنے حقوق کو اس کو دی ہوئی نعمتوں میں قرار دیا ہے، خدا کی قسم، خداوند عالم کی نعمتیں میرے اختیار میں ہیں اور میں ہمیشہ اس بات کی وجہ سے خوفزدہ رہتا ہوں اور اپنے دونوں ہاتھو ں کو حرکت دیتا رہتا ہوں تاکہ جو حقوق خداوند عالم نے مجھ پر واجب قرار دیئے ہیں ان کو ادا کرسکوں۔
(راوی کہتا ہے)میں نے کہا کہ میری جان آپ پر قربان، آپ اپنی عظمتوں کے باوجود اس چیز سے خوفزدہ رہتےہیں؟ آپؑ نے فرمایا: ہاں!تعریف کرتا ہوں پروردگار کی ان نعمتوں کے سلسلہ میں جو اس نے مجھے عطا کی ہے(۱)۔
امام(ع) اس نظریہ کے ساتھ کہ سائل کی حاجت روائی کرنا اور اسے عطا کرنا، سخاوت ہی نہیں بلکہ شکر نعمت بھی ہے، اپنے مال کو فقراء کے درمیان تقسیم کردیتے تھے اور اس عطا کے دوران خود کو سائل سے پوشیدہ کر لیتے تھے تاکہ سائل کو سبکی اور خفت کا احساس نہ ہو(۲)۔
امام رضا علیہ السلام نے عرفہ کے دن اپنے تمام اموال کو راہ خدا میں خرچ کردیا، فضل ابن سہل نے اس کام کو نقصان دہ سمجھا؛ لیکن امام(ع) نے اسے فائدہ مند جانتے ہوئے فرمایا:جس چیز کے ذریعہ خداوند عالم کی جزا اور عطا کو خریدتے ہو وہ چیز نقصان دہ نہیں ہوا کرتی(۳)۔
امام(ع) صدقہ دینے میں بہت معروف تھے اور اس کام کو شب کی تاریکی میں انجام دیتے تھے(۴)، جب بھی دسترخوان بجھتا تھا تو ہر نعمت میں سے کچھ اٹھاتے تھے اور فرماتے تھے کہ اسے فقیروں کو دے دیا جائے(۵)۔
یہ باتیں، امام رئوفؑ کی مہربانیوں کی صرف چند مثالیں ہیں، انکے علاوہ نہ جانے کتنے مواقع ہیں تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں جو آپؑ کی سخاوت اور عطا کے پہلو کو نمایاں کرنے کو بیتاب رہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
۱۔ محمد باقرمجلسی، پیشین، ج ۳ ص ۵۰۲.
۲۔مذکورہ کتاب، ج ۴. ص ۲۴.
۳۔ محمد بن علی مازندرانی ابن شهر آشوب، پیشین، ۳۹۰/ سید محسن امین، اعیان الشیعه، ج ۲ ص ۱۵.
۴۔ عبدالله بن محمد بن عامر شبراوی، الاتحاف بحب الاشراف ص ۱۶۵.
۵۔ احمدبن محمد خالد برقی، محاسن، ص ۳۹۲.
Add new comment