خلاصہ: کسی مومن کو خوش کرنا، بہت اہمیت فضیلت کا حامل ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) سے منقول ہے: " ... لَيْسَ شَيْءٌ مِنَ الْأَعْمَالِ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ بَعْدَ الْفَرَائِضِ أَفْضَلَ مِنْ إِدْخَالِ السُّرُورِ عَلَى الْمُؤْمِن" (بحارالانوار، ج۷۵، ص۳۴۷)، "اللہ عزوجل کی بارگاہ میں فرائض کے بعد اعمال میں سے کوئی عمل، مومن کو خوش کرنے سے افضل نہیں ہے"۔ مومن کو خوش کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مومن کو ہنسایا جائے چاہے مزاق اڑانے اور دوسروں کو تکلیف دینے سے ہو، بلکہ جس طریقہ سے شریعت نے اجازت دی ہے اس طریقہ سے مومن کو خوش کرنا چاہیے۔ اس حدیث میں غوروخوض کرتے ہوئے چند نکات ماخوذ ہوتے ہیں:
۱۔ اس حدیث میں ہر کسی کو خوش کرنے کے لئے نہیں کہا گیا، بلکہ مومن کو خوش کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
۲۔ اس حدیث میں اعمال کی بات ہورہی ہے، لہذا ایمان اور دل کا پاک ہونا کافی نہیں، بلکہ اعمال کی بھی ضرورت ہے۔
۳۔ فرائض کی ادائیگی تمام اعمال سے افضل ہے، بنابریں مستحبات، فرائض کی ادائیگی کے بعد والے رتبہ پر ہیں۔
۴۔ مومن کو خوش کرنا، اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کا مقام فرائض کی ادائیگی کے بعد فورا ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ خوش کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گناہ کے ذریعہ مومن کو خوش کیا جائے، کیونکہ ایسے کام کا کوئی ثواب نہیں، بلکہ عذاب کا باعث بھی ہے لہذا شرعی حدود سے آگے نہ بڑھا جائے اور نیز فضول اور بیہودہ کاموں کے ذریعہ بھی خوش نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ سورہ مومنون کی تیسری آیت میں اللہ تعالی نے مومنین کی ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ جو لغویات سے منہ موڑتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بحارالانوار، مجلسی، دار إحياء التراث العربي، بیروت، ۱۴۰۳ق)
Add new comment