اہل بیت (علیہم السلام) کے موقف مختلف اور مقصد واحد

Thu, 06/29/2017 - 09:54
اہل بیت (علیہم السلام) کے موقف مختلف اور مقصد واحد

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شوال کے مہینہ میں تاریخ اسلام سے متعلق کئی مناسبتیں ہیں: غزوہ حنین، غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ بنی قینقاع، غزوہ بنی سلیم۔ اور نیز محمد و آل محمد (علیہم السلام) میں سے کئی حضراتؑ سے متعلق مناسبتیں پائی جاتی ہیں جیسے جنگ صفین کے لئے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی روانگی، حضرت مسلم ابن عقیل (علیہ السلام) کا کوفہ میں داخل ہونا، حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) کا مرو (خراسان) میں داخل ہونا، حضرت سید عبدالعظیم حسنی (علیہ السلام) کی وفات، حضرت امیرالمومنین ­­(علیہ السلام) کے لئے ردّشمس کا واقعہ، حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کا مدینہ سے عراق جلاوطن ہونا، حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی شہادت، حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کی غیبت کبری کا شروع ہونا۔ نیز ظالم اور غاصب حکمرانوں میں سے متوکل  عباسی کا قتل ہونا اور عبدالملک مروان کا مرنا۔ لہذا اس مضمون میں ان مختلف واقعات کے سیاسی اور ثقافتی پس منظر کو پہچاننے کے لئے طائرانہ گفتگو کی جارہی ہے۔
دین مقدس اسلام، اللہ تعالی کا آخری اور مکمل ترین دین ہے۔ اسلام، انسان کی ترقی و کمال اور دین و دنیا کی سعادت کا باعث ہے۔ اس مقصد تک پہنچنے کے لئے دین اسلام نے علمی اور عملی احکامات کے ساتھ ایسے راہنماؤں اور پیشواؤں کا تعارف کروایا ہے جن کی بات اور کردار، لوگوں کے لئے نمونہ عمل اور معیارِ معرفت ہے۔ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) لوگوں کے لئے بہترین اور مکمل ترین نمونہ عمل ہیں۔ قرآن کریم نے آپؐ کے اسوہ اور نمونہ عمل ہونے کو واضح طور پر بیان کردیا ہے: " لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيراً"[1]، "بے شک تمہارے لئے پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ذات میں (پیروی کیلئے) بہترین نمونہ موجود ہے۔ ہر اس شخص کیلئے جو اللہ (کی بارگاہ میں حاضری) اور قیامت (کے آنے) کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے"۔[2]
نبی اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بعد ائمہ معصومین (علیہم السلام) آنحضرتؐ کے برحق خلفاء اور جانشینوں کے طور پر امت کے لئے نمونہ عمل ہیں جو اپنے کلام اور کردار کے ذریعہ اسلامی معاشرے کے مختلف سیاسی اور ثقافتی حالات میں ہمیشہ لوگوں کے ہادی و راہنما رہے ہیں اور انہی حضراتؑ کا سلسلۂ ہدایت تا قیامت جاری رہے گا۔
ائمہ طاہرین (علیہم السلام) میں سے ہر ایک معصومؑ خاص طرح کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی حالات سے سامنا کرتے رہے ہیں، یعنی سب ائمہ اطہار (علیہم السلام) کے زمانوں کے حالات برابر نہیں تھے، اسی لیے ہر معصومؑ، اس دور کے حالات کے مطابق اپنا موقف اختیار کرتے تھے۔
ایک معصومؑ نے تحفظِ اسلام کے لئے صلح کی تو دوسرے نے جنگ کی، ایک نے اسلامی معارف کو دعا و مناجات کے ذریعہ پھیلایا اور دوسرے نے اسلامی علوم و معارف کی عظیم درسگاہ قائم کی اور کثیر افراد کی تعلیم و تربیت کی۔ایک نے اپنی زیادہ تر عمر کو ظالم حکومت کے زیرنظر یا قید میں گزارا اور دوسرے نے مجبوری کے تحت ولایتعہدی کے رتبہ تک ظالم حکومت کے قریب رہنے کو اختیار کیا اور اسی طرح مختلف حالات میں ہی ہر امامؑ نے چراغ ہدایت کو روشن رکھا۔
۲۵۰ سالہ دورانِ امامت، ایک مکمل نظام ہے جس کا ہر حصہ دوسرے حصہ کی تکمیل کرتا ہے اور زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے سے ملا ہوا، متّصل اور متحد ہے۔ اہل بیت (علیہم السلام) کے طریقہ کار اور سیاستوں میں دکھائی دینے والا فرق، زمانہ کے معاشرتی، سیاسی اور ثقافتی حالات کی وجہ سے ہے جس سے ہر امامؑ کا مختلف صورتوں میں سامنا ہوتا رہا ہے۔ یہ فرق ہرگز ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کے نظریات اور مقاصد میں نہیں تھا، سب کا مقصد، ایک ہی تھا، مگر دشمنوں کی شیطانی پالیسیوں کی وجہ سے، ہر دور کے امامؑ کو دین کے تحفظ کا طریقہ بدلنا پڑا۔
سب ائمہ اطہار (علیہم السلام) کا مقصد تھا کہ اسلامی حکومت قائم کریں کیونکہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو امام برحق جانتے تھے اور دوسرے لوگ جو ان حضراتؑ کی اجازت کے بغیر حکومت کرتے تھے، وہ سب غاصب تھے۔اہل بیت (علیہم السلام) کے دشمن بھی جانتے تھے کہ ا ن حضراتؑ کا مقصد حکومت کرنا ہے، اسی لیے انہوں نے اہل بیت (علیہم السلام) کے لئے سب کچھ محدود کرکے ان کو انتہائی تکلیف اور دباؤ میں رکھا۔ لہذا حکومت قائم کرنا یقینی اور مسلمہ اصول ہے اور تاریخِ امامت میں کبھی ایسا وقوع پذیر بھی ہوگیا کہ یہ ہدف کچھ عرصہ کے لئے پورا ہوا، جیسے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی چار سال اور نو مہینوں کی حکومت اور حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کی تقریباً چھ ماہ کی ظاہری خلافت۔
اہل بیت (علیہم السلام) سب واحد نور ہیں "كُلُّهم نورٌ واحد"[3] اور سب کا ہدف اور رُخ ایک طرف ہے۔ بعض لوگوں نے ائمہ معصومین (علیہم السلام) کی ظاہری زندگی میں تضاد سمجھا ہے، جبکہ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ اس بات کی تفہیم کے لئے یہ مثال پیش کی جاسکتی ہے کہ اگر دس گیارہ ہجری سے ایک تحریک کا آغاز سمجھا جائے جو ۲۶۰ ہجری تک جاری ہے جو غیبت صغری کے آغاز کا سال ہے، اس ۲۵۰ سالہ عرصہ کو ایک معصوم انسان طے کررہا ہو تو یہ معصوم انسان ہوسکتا ہے طویل عرصہ کے دوران مختلف حکمت عملی اور موقف اختیار کرے۔ کبھی تیز چلنا ضروری سمجھے اور کبھی آہستہ چلنا، حتی کبھی حکیمانہ خاموشی اختیار کرے اور یہی خاموشی بھی ان لوگوں کی نظر میں جو اُس شخص کے علم و حکمت اور مقصد کو جانتے ہیں، آگے کی طرف چلنا شمار ہوگا، اس نقطہ نگاہ سے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام)کی زندگی، حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) اور حضرت امام حسین (علیہ السلام) اور دیگر آٹھ ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کی زندگی ۲۶۰ ہجری تک مستمر اور مسلسل تحریک ہے۔
اہل بیت (علیہم السلام) رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی وفات سے لے کر ۲۶۰ ہجری تک اسلامی حکومت کو قائم کرنے کی کوشش میں تھے۔ البتہ یہ نہیں کہاجاسکتا کہ ہر امامؑ کی کوشش تھی کہ اپنے ہی زمانہ میں اسلامی حکومت قائم کریں، بلکہ قریب اور بعید مستقبل میں اسلامی حکومت کو قائم کرنا مقصد تھا۔
اتنے عرصہ میں زمانے کے ظالم و جابر حکمران، موسوی لباس میں فرعونی حقیقت کے ساتھ اور ابراہیمی لباس میں نمرودی حقیقت کے ساتھ حکومت کرتے رہے، وہ اسلام کو اچانک لوگوں کے دلوں سے نکال نہ سکے تو اسلام کی تحریف کرنا شروع کردی۔اہل بیت (علیہم السلام) نے اسلام کی تحریف کا اس طرح مقابلہ کیا کہ اسلام کو صحیح طریقہ سے واضح کیا، قرآن کی حقیقی تفسیر کی اور تحریفوں اور تحریف کرنے والوں کو بے نقاب کیا، یہی اقدامات، سیاسی پہلو کے بھی حامل تھے۔
نتیجہ: جیسے اہل بیت (علیہم السلام) کی دینی اور سیاسی زندگی سے واضح ہوتا ہے کہ سب حضراتؑ کے زمانے کے حالات برابر نہیں تھے، لہذا ہر زمانہ میں ہر معصومؑ کو بظاہر الگ طریقہ اپنانا پڑا، لیکن اس کا مطلب بالکل یہ نہیں ہے کہ ان حضراتؑ کے اہداف بھی بدلتے رہے ہیں، بلکہ سب کا ہدف اور مقصد ایک ہی تھا، لیکن ظالموں کی شیطانی پالیسیوں سے مقابلہ کرنے اور دین الہی کے تحفظ کے لئے طریقہ کار بدلنے پڑے۔ اہل بیت (علیہم السلام) کا ایک عظیم مقصد اسلامی حکومت کو قائم کرنا تھا، یہ مقصد کم و بیش پورا ہوا، لیکن اکثر، ظالموں کی غاصبانہ حکومت رکاوٹ بنتی رہی، مگر اہل بیت (علیہم السلام) کی جدوجہد بھی مسلسل جاری رہی، لہذا جب حضرت امام زمانہ (علیہ السلام) ظہور فرمائیں گے تو ساری دنیا پر اسلامی حکومت قائم کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] سورہ احزاب، آیت21۔
[2] ترجمہ مولانا شیخ محسن نجفی صاحب۔
[3] عيون اخبارالرضا (عليه السلام)، ترجمہ غفارى و مستفيد، ج2، ص417۔

kotah_neveshte: 

خلاصہ: اہل بیت (علیهم السلام) دین الہی کو محفوظ رکھنے اور لوگوں کی ہدایت کرنے کے لئے مختلف زمانوں میں، طریقہ کار بدلتے رہے، لیکن مقصد ہرگز نہیں بدلا، سب حضرات کا مقصد واحد تھا، موقف اور طریقہ کار میں جو تبدیلیاں آتی رہیں، وہ زمانہ کے دشمنوں کی شیطانی پالیسیوں کی وجہ سے تھا۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 50