خلاصہ: ایک لحاظ سے ولایت کی دو قسمیں ہیں: ولایت تکوینی اور ولایت تشریعی۔ اہل بیت (علیہم السلام) کو اللہ تعالی نے یہ دونوں ولایتیں عطا فرمائی ہیں، وہ اللہ کی عطاکردہ ولایت کو اللہ کے اذن سے استعمال کرتے ہیں اور ولایت در حقیقت صرف اللہ ہی کی ہے، مگر وہ اپنے خاص بندوں کو ولایت عطا کرتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ مضمون عید غدیر کی مناسبت سے تحریر کیا گیا ہے جس میں فرمان رسالت کی فروعات میں سے ولایت کی ایک اہم بحث پر گفتگو کی جائے گی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غدیر خم کے مقام پر عظیم الشان خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی ولایت کا اس طرح اعلان فرمایا: "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ"[1]، "جس پر میں ولایت رکھتا ہوں علی بھی اس پر ولایت رکھتے ہیں، بارالہا! محبت کر اس سے جو علی سے محبت کرے اور دشمنی کر اس سے جو علی سے دشمنی کرے"۔
ولایت کا مفہوم: ولایت اصل میں "قرب اور نزدیکی" کے معنی میں ہے[2]۔ ولایت کے دیگر معانی جیسے محبت، خاص یا عام تولیّت جو حکومت میں ظاہر ہوتے ہیں، نیز اسی قرب اور نزدیکی کے معنی سے ماخوذ ہیں۔ ولایت کے لفظی لحاظ سے معنی یہ ہیں کہ ایک چیز دوسری چیز کے پاس قرار پائے اس طرح سے کہ ان کے درمیان کوئی فاصلہ نہ ہو[3]، اسی لیے یہ لفظ نزدیکی کے معنی میں استعمال ہوا ہے، چاہے مکانی نزدیکی ہو اور چاہے معنوی نزدیکی[4]، ولیّ بھی اسی لفظ سے ماخوذ ہے اور اللہ کے ناموں میں سے ہے[5] ولی ستائیس معنوں میں استعمال ہوا ہے جن میں سے بعض معانی یہ ہیں: سرپرست، حاکم، مدبر اور امور میں تصرف کرنے والا، مطیع اور تابعدار، زیادہ لائق، نزدیک اور قریب، دوست، مددگار، معاہدہ کرنے والا، ہمسایہ، رشتہ دار اور چچا زاد، آزاد کرنے والا اور آزاد ہونے والا[6] ، اصطلاحی معنی میں ولایت ایک طرح کی نزدیکی اور قرب کو کہا جاتا ہے جو دوسروں کے کاموں میں خاص طرح کے تصرف کی مجوز ہو۔[7] اس تحریر میں ہماری بحث ولایت کے اسی اصطلاحی معنی پر ہے کہ یہ نزدیکی ان دو مکانی چیزوں کی ایک دوسرے سے نزدیکی کی طرح نہیں جو ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہوتی ہیں جیسے دو کتابیں، دو گھر، دو آدمی، بلکہ اس طرح سے ہے کہ ان میں سے ایک، دوسرے کے قریبی یا قریبیوں پر سرپرستی رکھتی ہے جیسے انسان کے نفس کی اپنی اندرونی طاقتوں پر ولایت ہے (اندرونی طاقتیں جیسے سوچ، ذہن، دل، حیوانی نفس کی خواہشات وغیرہ)۔ ولایت کی دو قسمیں ہیں: ولایت تکوینی اور ولایت تشریعی۔ لفظ تکوین کہ جو لفظ "کون" سے ماخوذ ہے، "ہونے" کے معنی میں ہے اور "عالم تکوین" سے مراد، خلقت کا کل نظام ہے جو اللہ تعالی کی حکمت اور امر سے "وجود" میں آیا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے: "بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ" [8]، "وہ زمین و آسمان کا موجد ہے اور جب کسی امر کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اسے صرف کہتا ہے ہوجا اور وہ چیز ہوجاتی ہے"۔ واضح رہے کہ اللہ کا "قول" وہی اللہ کا "فعل اور کام" ہے، نہ کہ الفاظ، آوازیں اور ان پر منطبق ہونے والے معانی۔
کائنات کا کل نظام صرف اللہ کے قبضہ قدرت میں: مذکورہ بالا مطالب کے مطابق "ولایت تکوینی" یعنی قرب، نزدیکی، سرپرستی، صاحب اختیار ہونا اور ساری کائنات کی حکومت اللہ ہی کی ہے۔ سب کچھ اسی کی مخلوق، مصنوع، مرزوق، مربوب اور محکوم ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے: "لِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّ اللَّـهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ"[9]، "اللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کی تمام چیزیں ہیں اور وہی بے نیاز بھی ہے اور قابل ستائش بھی"۔ اور نیز فرمایا ہے: "ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّـهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ"[10]، "پھر سب اپنے مولائے برحق پروردگار کی طرف پلٹا دیئے جاتے ہیں، آگاہ ہوجاؤ کہ فیصلہ کا حق صرف اسی کو ہے اور وہ بہت جلدی حساب کرنے والا ہے"۔ ولایت تکوینی مخلوقات اور تکوینی امور میں تصرف کرنے کو کہا جاتا ہے، خلق کرنا، مخلوقات کو باقی رکھنا اور ان میں تبدیلیاں پیدا کرنا، سب اللہ تعالی کے ارادہ اور قبضہ قدرت میں ہے۔ لہذا پروردگار عالم سب مخلوقات پر تکوینی ولایت رکھتا ہے۔ ولایت تشریعی یہ ہے کہ تشریع، امر و نہی اور حکم دینے کا حق حاصل ہو، اللہ تعالی کی ولایت تشریعی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کسی کام کا حکم دیتا ہے اور کسی کام کے ارتکاب سے منع کرتا ہے۔
ولایت تکوینی اور تشریعی اللہ کے خاص بندوں کے اختیار میں: جب کہا جاتا ہے کہ فلاں چیز (اسم یا صفت) یا کوئی قدرت اللہ کی ہے تو بعض لوگ لاعلمی یا غلط فہمی کی بنیاد پر کہہ دیتے ہیں کہ "اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مخلوق اس کی حامل نہیں ہیں اور جو شخص کسی دوسرے کو اس کا حامل سمجھ لے، وہ مشرک ہوگیا ہے"، یہ جو بعض لوگ "دعا، توسل، شفاعت وغیرہ" کو شرک سمجھتے ہیں، اس سوچ نے اسی غلط فہمی سے جنم لیا ہے، جبکہ اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں اپنی کوئی طاقت کسی کو نہیں دوں گا، یہ فرمایا کہ اللہ "محیی یعنی زندہ کرنے4 والا" ہے، مگر یہ نہیں فرمایا کہ زندہ کرنے کی طاقت کسی کو نہیں دوں گا، بلکہ حضرت عیسی (علیہ السلام) کو ایسی طاقت دی، مگر پھر بھی آنحضرت اللہ تعالی ہی کے اذن، اجازت اور قدرت سے مردہ کو زندہ کرتے تھے۔ یہ فرمایا کہ علم غیب صرف اللہ کا ہے، لیکن یہ نہیں فرمایا کہ یہ علم کسی کو عطا نہیں کروں گا بلکہ انبیا اور کتنے اولیا کو اللہ تعالی نے علم غیب عطا فرمایا، مگر وہ غیب سے مطلع ہونے میں اللہ ہی کے محتاج ہیں، اسی طرح ولایت صرف اللہ کی ہے، لیکن یہ نہیں فرمایا کہ میں کسی کو ولایت نہیں دوں گا، بلکہ ولایت عطا کی اور جسے اللہ کی طرف سے ولایت ملی ہے، وہ ولایت کو استعمال کرنے میں بالکل اللہ ہی کا محتاج ہے، اس کی واضح سی مثال یہ ہے کہ جیسے ہمارے ہاتھ پاوں، آنکھیں کان اور بدن کے دیگر تمام اعضا، اللہ ہی کی ملکیت ہیں، مگر اللہ نے ان کو اذن اور حکم دے رکھا ہے کہ ہمارے ارادہ کی فرمانبرداری اور اطاعت کریں، مگر جس حد تک اللہ نے ان کو اجازت اور حکم دیا ہے وہ اتنی ہی ہماری فرمانبرداری کرسکتے ہیں اور اس سے ہرگز ذرہ بھر زیادہ ہماری فرمانبرداری نہیں کرسکتے، کیونکہ یہ بدن پہلے اللہ کا فرمانبردار ہے اس کے بعد ہمارا، اور اگر ہماری فرمانبرداری کررہا ہے تو درحقیقت اللہ ہی کی فرمانبرداری کررہا ہے، اب ہم اگر اس سے شریعت اور حکم الہی کے مطابق فائدہ اٹھائیں تو ہم نے بھی اللہ تعالی کی فرمانبرداری کی ہے، ورنہ ہمارے بدن نے تو اللہ کی فرمانبرداری کی ہے، لیکن ہم نے گناہ کرتے ہوئے اللہ کی نافرمانی کردی ہے۔ لہذا اسی بدن پر ہمیں ولایت تکوینی حاصل ہے، یعنی ہم آنکھ سے کہتے ہیں کہ دیکھ تو وہ دیکھتی ہے، کان سے کہتے ہیں کہ سن تو وہ سنتا ہے، ہاتھ سے کہتے ہیں کہ فلاں چیز کو اٹھاؤ تو وہ اٹھا لیتا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بچہ سب وہ کام نہیں کرسکتا جو بڑا آدمی کرسکتا ہے، کیونکہ بچہ کے اختیارات انتہائی محدود ہیں اور جیسے بڑا ہوتا جائے گا اللہ اسے نئے اور پہلے سے زیادہ وسیع اختیارات عطا کرتا رہے گا، جب بالغ ہوجائے گا تو اسی تکوینی طاقت اور اختیارات کے مطابق اس پر ذمہ داریاں عائد کرے گا اور اگر انسان ان طاقتوں کو استعمال کرتے ہوئے گناہ کا ارتکاب کرے گا تو اس کا مواخذہ بھی کرے گا اور جب انسان پر بڑھاپے کے بادل چھا جائیں گے اور مالک کائنات عطاکردہ اختیارات اور جسمانی طاقتیں رفتہ رفتہ واپس لے لے گا تو اس کی ذمہ داریوں میں بھی کمی کردے گا اور آخرکار اسے مختلف طرح کے عجز، ناتوانی اور بے بسی کی طرف پلٹا دے گا جس کی وجہ سے وہ مختلف طاقتوں کو کھو بیٹھنے اور ان سے فائدہ مند نہ ہوپانے کی وجہ سے اللہ کو دل کی اتھاہ گہرائی سے پکارے گا، ایسے عالم میں اللہ تعالی اسے یہ بات سمجھا دیگا کہ اگر تم ساری زندگی اتنی سرگرمیوں میں مصروف رہے تو تمہیں اسقدر بھرپور طاقتیں دینے والا میں اللہ ہی تھا، اگر یہ طاقتیں تمہاری اپنی اور ذاتی ہوتیں تو اب ان کو استعمال کرتے ہوئے، کمر سیدھی کرکے، چہرے کی شادابی اور طراوت پلٹا کر آنکھوں میں نور ڈال کر، کانوں کی قوت سماعت پلٹا کر، عصا کو چھوڑ کر جوانوں کی طرح دنیا کی لذتوں سے لطف اندوز ہو کر دکھاو!!! جب ایسا نہیں کرسکتے تو جان لو کہ جب یہ سب کچھ تھا تو تمہیں دینے والا میں اللہ تھا اور اب جو تم ان سب کاموں سے عاجز ہوگئے ہو تو جان لو کہ تم سے لینے والا بھی میں اللہ ہوں۔ جس طرح اب تک میری ولایت اور حکومت تم پر جاری رہی ہے، اس کے بعد اور ہمیشہ میں ہی حقیقی ولی اور حاکم ہوں۔
تکوینی طاقت کے استعمال میں معصوم اور غیر معصوم میں فرق: عام انسان کو جب یہ اختیارات اور تکوینی طاقتیں ملتی ہیں تو وہ ان طاقتوں کو حق کی راہ پر بھی استعمال کرسکتا ہے اور باطل کے راستہ پر بھی لیکن معصوم اگرچہ دونوں راستوں کو انتخاب کرنے پر مختار ہوتا ہے، نہ کہ ایک راستہ پر مجبور، مگر پھر بھی صرف اسی راستہ کو استعمال اور اختیار کرتا ہے جس پر اللہ تعالی کا حکم اور اس کی رضامندی ہو، نہ کہ جس پر وہ خود چاہے اور اللہ نہ چاہے، دوسرے لفظوں میں وہ وہی چاہتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ لہذا وہ اللہ کی فرمانبرداری اور اطاعت کرتا ہوا اس ولایت تکوینی کو استعمال کرتا ہے۔ واضح رہے کہ ولایت تکوینی، اللہ تعالی کی عبودیت، اطاعت اور فرمانبرداری کی بنیاد پر عطا ہوتی ہے۔ پیغمبر اور امام کو اللہ تعالی کے اذن اور اجازت سے یہ حق حاصل ہے کہ مخلوقات میں تصرف کریں اور نیز لوگوں کو امر و نہی کریں، یعنی ان کے پاس بحکم الہی، ولایت تکوینی بھی ہے اور ولایت تشریعی بھی۔ شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ جو کچھ پیغمبر اسلام (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے لئے ثابت ہے، امام کے لئے بھی ہونا چاہیے، سوائے منصب نبوت کے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ امام بھی آنحضرتؐ کی طرح ولایت تکوینی اور ولایت تشریعی کا حامل ہے۔ امام کے پاس ولایت تکوینی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ امام، اللہ تعالیٰ کے اذن و عطا سے کائنات کے امور میں تصرّف کرتا ہے اور امام کے پاس ولایت تشریعی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دین اور دنیا کے سب امور میں اسے امت کے تمام افراد کو امر و نہی کرنے کا حق حاصل ہے اور کوئی شخص اس کے حکم کی نافرمانی نہیں کرسکتا۔ نافرمانی نہ کرسکنے کا مطلب یہ ہے کہ ولایت تکوینی میں تو ہر چیز نافرمانی کرنے سے بالکل عاجز و ناتوان ہے اور درحقیقت اپنے پورے وجود کے ساتھ سر تسلیم خم کیے ہوئے ہے، لیکن ولایت تشریعی میں کیونکہ جبر نہیں پایا جاتا، بلکہ انسان کو انتخاب کرنے کا اختیار دیا گیا ہے تو اس کے سامنے نافرمانی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان نے اپنے اختیار سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے نافرمانی کی تو اس کا مواخذہ کیا جائے گا۔ بنابریں شریعت میں اگر کوئی شخص پیغمبر اور امام کی نافرمانی کا ارتکاب کرے گا تو اس نے درحقیقت اللہ تعالی کی ولایت تشریعی کے سامنے نافرمانی کی ہے، کیونکہ یہ دونوں ولایتیں حقیقت میں اللہ ہی کی ولایتیں ہیں۔ اکثر مسلمان یا تفریط کا شکار ہیں یا افراط کا، تفریط یعنی حد سے کم کرنا اور افراط یعنی حد سے بڑھا دینا۔ بعض نے اہل بیت (علیہم السلام) کے پاس ولایت ہونے کا انکار کرتے ہوئے اس بات کے معتقدوں کو مشرک سمجھ لیا اور بعض افراط میں پڑ کر اہل بیت (علیہم السلام) کے لئے ایسے مقام کے قائل ہیں جو اللہ نے انہیں نہیں دیا اور وہ ان حضرات کے بارے میں غلو اور حد سے سوا کے معتقد ہوجاتے ہیں، جبکہ دونوں حق کے راستے سے نکل کر گمراہی کے گڑھے میں گر گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقام غدیر پر پہنچ کر آگے چلے جانے والے لوگوں کو واپس مقام غدیر پر پلٹ آنے کا حکم دیا اور پیچھے رہ جانے والوں کا انتظار کیا تا کہ وہ پہنچ آئیں، اس میں ایک عملی درس ہے کہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) سے نہ آگے بڑھو اور نہ پیچھے رہو، بلکہ جہاں آنحضرت نے کھڑے ہونے کا حکم دیا ہے وہیں پہنچو اور وہیں رکو۔ واضح رہے کہ ان دونوں ولایتوں کی بھی مختلف قسمیں ہیں۔
نتیجہ: اہل بیت (علیہم السلام) کو اللہ تعالی نے ولایت تکوینی بھی عطا کی ہے اور ولایت تشریعی بھی، وہ جب چاہیں اللہ کے اذن سے کائنات میں تصرف کرسکتے ہیں، اور ہمیں چاہیے کہ جیسے ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولایت کے معتقد ہیں، اہل بیت (علیہم السلام) کی ولایت کے بھی معتقد رہیں، کیونکہ آنحضرت نے یوم غدیر فرمادیا تھا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی (علیہ السلام) بھی مولا ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] السيره النبويه ابن كثير، ج4، ص421۔
[2] معجم مقاييس اللغة، ج6، ص141۔
[3] مفردات راغب، ص885۔
[4] ولایت در قرآن، آیت اللہ جوادی آملی، ص18و19۔
[5] لسان العرب، ج15، ص407۔
[6] الغدیر، ج1، ص641۔ ان کے بیان کردہ معانی میں سے صرف چند معانی کو یہاں پر بیان کیا ہے۔
[7] المیزان فی تفسیر القرآن، ج6، ص12۔
[8] سورہ بقرہ، آیت 117۔
[9] سورہ لقمان، آیت 26۔
[10] سورہ انعام، آیت 62۔
Add new comment